کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

302

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4082 دن مکمل ہوگئے۔ پی ایس ایس ایف کے صدر محمد بلال، سارنگزئی، بیبرگ، جہانزیب موسیٰ خیل نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

لاپتہ سیاسی رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ، لاپتہ طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج بلوچوں کے پرامن جدوجہد کرنے والوں کو اچھی طرح ادراک ہے کہ پاکستانی فورسز کسی بھی وقت ان پر حملہ آور ہوکر ان کی عزت، ننگ اور زندگی کو ختم کرسکتے ہیں لیکن ان کا جذبہ علمی اور شعوری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن، بلوچ فرزندوں کا اغواء، شہادت کے ساتھ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی جاری ہے تو دوسری جانب بلوچ پرامن جدوجہد کے خلاف پاکستان کے اندر ایک رائے ہموار کی جارہی ہے تاکہ بلوچ کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون کی جاسکے۔

ماما قدیر نے کہا کہ ریاستی جبر اور ظلم تسلسل کے ساتھ جاری ہے، ستمبر کے مہینے کے آغاز کیساتھ اس ظلم و جبر میں تیزی لائی گئی، مچھ، بولان، مستونگ، گچک، آواران، مشکے اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں فوجی آپریشنوں میں عام آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

کیمپ میں موجود لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے کہا کہ میں اپنے والد کیلئے گذشتہ گیارہ سالوں سے احتجاج کررہی ہوں اور آج بھی اسی وجہ سے یہاں آئی ہوں تاکہ اس احتجاج کے تسلسل کو برقرار رکھ سکوں۔

خیال رہے ڈاکٹر دین محمد بلوچ سیاسی رہنماء ہے جو بلوچ نیشنل موومنٹ سے منسلک تھے۔

سمی دین نے بتایا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو خضدار کے علاقے اورناچ میں ڈیوٹی کے دوران پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جس کے ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

دریں اثناء لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کے جبری گمشدگی کیخلاف ریلیز راشد حسین کمیٹی کی جانب سے #UAEWhereIsRashidHussain کے ہیش ٹیگ کے ساتھ 2 اکتوبر کو آن لائن کمپئین کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس بھی کمپئین کے حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔

خیال رہے راشد حسین کے لواحقین کے مطابق انہیں متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور چھ مہینے بعد انہیں غیر قانونی طور پاکستان کے حوالے کیا گیا لیکن پاکستان میں بھی پاکستانی خفیہ اداروں نے انہیں جبری طور پر لاپتہ رکھا ہے۔

راشد حسین کے لواحقین خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ راشد حسین کے زندگی کو خطرات لاحق ہے اور اگر انہیں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو پاکستان کے ساتھ متحدہ عرب امارات بھی اس جرم میں برابر کا شراکت دار ہے۔