کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

224

بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 4069 دن مکمل ہوگئے۔ منگچر سے در محمد بلوچ، خیر محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقع پر وی بی ایم پی رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آگ اور خون کے منظر کو گہرا بنانے والی ریاستی طاقت آئے روز نت نئے انسانی المیوں اور جبر استبداد کے بہیمانہ مظاہر سامنے لارہی ہے۔ وہ تمام علاقے جہاں بلوچ پرامن جدوجہد کی گہری اور وسیع سماجی بنیادیں ہیں، متقدرہ ریاستی قوتوں کی مسلح کاروائیوں اور سازشوں کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ نسل کش کاروائیوں میں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں پاکستانی جمہوریت، انسانی حقوق کی دعویداروں، دانشور حلقے میڈیا میں مکمل طور خاموشی اختیار کی جاچکی ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں آج مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہے جبکہ طالب علموں سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حفیظ اللہ محمد حسنی کے کیس میں جس پاکستانی میجر کو سزا کا دعویٰ کیا گیا اس کے تفصیلات آج تک منظر عام پر نہیں لائی گئی جبکہ حفیظ اللہ کے لواحقین سے بھاری رقم لیا گیا اور اس کی مسخ شدہ لاش گذشتہ دنوں برآمد ہوئی۔

ماما قدیر نے کہا کہ اسی نوعیت کا ایک اور کیس دہرایا جارہا ہے۔ خاران سے طالب علم ثناء بلوچ کے لواحقین کو بھی پاکستانی فوج کے کرنل نے یقین دہانی کرائی کہ اس کو تفتیش کے بعد رہا کردیا جائے گا لیکن سات مہینے بعد بھی وہ رہا نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے متعدد کیسز ہے جہاں نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے بعد ان کے لواحقین کو ریاستی اداروں کے تصدیق کے باوجود رہا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی اور ان واقعات میں آج تک کسی ادارے کے کسی فرد کو سزا نہیں ہوسکی ہے۔

ماما قدیر نے کہا حسیبہ قمبرانی کو وزیراعظم پاکستان کے معاونین کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ عمران خان خود ان سے رابطہ کرینگے اور ان کے بھائی حسان قمبرانی اور کزن حزب اللہ قمبرانی کو بازیاب کیا جائے گا لیکن حسیبہ پچھلے سات مہینوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے سمیت آج سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی فریاد عالمی اداروں تک پہنچنانے کی کوشش کررہی ہے۔