بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4063 دن مکمل ہوگئے۔ خاران سے سماجی کارکن صغیر احمد، یحییٰ بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
حب چوکی سے لاپتہ چار نوجوانوں کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
لواحقین نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تین نوجوانوں سدیر، زیبر اور نادل کو 21 اپریل 2019 کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ساکران روڈ پر واقع ان کے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیا اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دن کے بعد مذکورہ افراد کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے جبکہ اس دوران متعدد بار انتظامیہ اور دیگر حکام سے نوجوانوں کو بازیاب کرانے کی اپیل کی گئی۔
انہوں نے کہ اسی طرح گل ندیم بلوچ کو حب بازار سے 7 اکتوبر 2019 کو لاپتہ کیا گیا، چشم دید گواہوں کے مطابق انہیں پاکستانی فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے زبردستی گاڑی میں بٹھایا اور اپنے ہمراہ لے گئے۔
لواحقین نے بتایا کہ دو سال گزرنے کے باوجود مذکورہ نوجوانوں کے حوالے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے جس کے باعث ان کے زندگیوں کے حوالے سے لواحقین کو خدشہ ہے۔ اگر ان پر الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
اسی طرح متحدہ مارات اور بعدازاں پاکستان سے جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
راشد حسین بلوچ کی والدہ نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو بلوچستان سمیت بیرون ممالک سے بھی جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے جبکہ یہاں نوجوانوں پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بھی بند کیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز بی ایم سی بحالی تحریک کے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے موقع پر بھوک ہڑتال پر بیٹھے نوجوانوں میں مجھے میرا بیٹا راشد حسین نظر آیا کیونکہ وہ بھی تعلیم یافتہ ہونے کے باجود روزگار کیلئے متحدہ امارات جانے پر مجبور ہوا لیکن وہاں بھی حکمرانوں نے انہیں نہیں بخشا۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور المیوں کا تسلسل ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کررہا ہے جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں نہ تو بلوچ قوم کو باوقار طور پر زندہ رہنے کا حق ہے اور نہ ہی انہیں پاکستانی حکمرانوں کے بلند و بانگ دعووں کے مطابق جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ طرز عمل اپنی ساخت میں نوآبادیاتی اور نتائج میں بلوچستان میں اپنا تسلط مضبوط کرنے اور بلوچ نسل کشی کا حامل ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ نسل کش پالیسی میں کھلی اور وسیع پیمانے پر فوجی کاروائیوں کے علاوہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بلند ہونے والی ہر آواز کو خاموش کرنے کے لیے ٹارگٹ کلنگ، اغواء نما گرفتاری، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سمیت اٹھاو مارو اور پھینکو کے ہتھکنڈے کا استعمال نمایاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان ریاستی سفاکانہ اقدامات نے بلوچ سزمین کو انسانی المیوں کی آماجگاہ بنادیا ہے جس کے باعث ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلوچوں کی عدم بازیابی کا مسئلہ انتہائی نازک صورت اختیار کرگیا ہے۔
انہوں نے کہا لاپتہ افراد کا جرم یہ ہے کہ وہ بلوچ حق کی آواز پرامن جمہوری انداز میں بلند کررہے تھے۔