بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4073 دن مکمل ہوگئے۔ میر شہک بادینی، سبزل بادینی اور آغا نذیر بلوچ، خالدہ ایڈوکیٹ بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج ہزاروں بلوچ فرزند لاپتہ ہیں، وہ پتہ نہیں کس حال میں ہونگے، اور کس طرح اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ ان کی مائیں کس حال میں ہیں، ان کے دل پے کیا گزر رہی ہے، ان کی حالت وہی ماں محسوس کرسکتی ہے جن کے بیٹے زندانوں میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں نے کوئی چوری نہیں کی، نہ ہی انہوں نے کسی کا گھر اجھاڑا ہے لیکن آج وہ زندانوں میں بند ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ جس نوجوان نے شعور پایا اس کو شہید کردیا گیا یا پاکستانی اذیت خانوں میں صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ جس نے مادیت پسندی کا مظاہرہ کیا وہ بیوروکریٹ کی صورت میں پاکستانی کرپٹ سیاسی نظام کا حصہ بنے اور آرام پسندی، بدعنوانی، لالچ، مصلحت پسندی، عیش و عشرت کا شکار ہوکر اپنے قومی فرائض اور ذمہ داریوں سے دور رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ نوجوانوں میں کچھ ایسے بھی ہے جو اپنے طالب علمی کے زمانے میں انقلابی پارٹیوں اور انقلابی رہنماوں کے آستانے میں رہے مگر آج لالچ، خوف اور عیش نوش کے خمار میں ڈوب کر اپنے سززمین، اپنے شہداء کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر بدعنوان پاکستانی نظام اور استحکام کے خام مال کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔