کرنل قذافی سے کمانڈر قذافی تک
تحریر: چیدگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نوجوان مزاحمت کار قذافی بلوچ کے والد اپنے عہد کے مشہور زمانہ لیبیائی حکمران کرنل قذافی سے متاثر ہوکر اپنے نومولود بچے کا نام قذافی رکھ دیتا ہے۔
قذافی کے والد کو شاید کرنل قزافی کے اور اس کے ملک کے متعلق کوئی خاص معلومات بھی نہیں تھے کیونکہ شہید کمانڈر قذافی کے والد مالدار “احمد” ایک زمانے میں مسقط آرمی میں فوج کی ملازمت بھی کر چکے تھے، تو اس زمانے میں کرنل قذافی بحیثیت ایک فوجی حکمران دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتے تھے اور عرب دنیا میں وہ ایک ہیرو تھے، اس بناء پر واجہ احمد اس امید سے اپنے نومولود بچے کا نام قذافی رکھتا ہے کہ شاید کل میرا بچہ بھی اپنے سماج میں ایک ہیرو کا کردار نبھائے گا۔
واجہ احمد آپ کا اندازہ صحیح نکلا، کرنل قزافی جس سے آپ متاثر تھے وہ بھی بیرونی و اندرونی حملہ آوروں سے نبرد آزما ہو کر اپنی زندگی قربان کردیتے ہیں گوکہ وہ آخری لمحات میں ایک آمر بن گئے تھے لیکن اس نے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی و غلامی سے موت کو زیادہ ترجیح دی۔
واجہ احمد آپ کا بیٹا اپنے بڑے بھائی کی طرح جب سینے پر بہادری و جرات کے ساتھ دشمن کا گولی کھا کر امر ہوجاتا ہے تو ایک اور قذافی امر ہوجاتا ہے۔ اس کے اولادوں پر دنیا کبھی بھی طعنہ نہیں دے گا کہ وہ ہار گئے۔
قذافی سے میری ملاقات پروم کے گوریلا کیمپ میں ہوا، جہاں وہ اپنے بھائی اکرام جان کی شہادت کے بعد گوریلا جنگ میں شامل ہوا، وہ کمسن لیکن پرعزم نوجوان تھا، وہ جانتا تھا کہ جس راستے پر اس نے چلنے کا فیصلہ کیا ہے وہ پرخار ہے، اس کو ایک دن موت سے بھی سامنا ہوسکتا ہے لیکن وہ مقصد کی حصول کیلئے موت کو ایک کامیابی تصور کرتے تھے۔
ورنا قذافی بلوچستان کیلئے آپ کے بہتے لہو نے ہمیں قرضدار کیا ہے، آپ کا دشمن یہ سوچتا ہوگا کہ ایک نوجوان اس عمر میں کیسے جنگ میں شامل ہوکر کم جوان عمری میں ایک گوریلا کمانڈر بن جاتا ہے لیکن بلوچستان کی خاک اپنے فرزندوں کی پر آشوب حالات میں خود پرورش و تربیت کرتا ہے کیونکہ اس کے فرزندوں کی لہو کیساتھ ان کی صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہے اسی بناء پر اس کے فرزند اپنی عمر سے بڑے زمہ داریوں کے ساتھ قومی جنگ میں کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں، یہ اسی جاری جنگ میں پلے بڑھے ہیں۔
اس جنگ نے نوجوانوں کو شعوری طور پر بیدار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور اپنی قوم کی غلامانہ زندگی کا احساس رکھتے ہیں اور اس نفرت بھری غلامی کیخلاف دشمن سے نبرد آزما ہیں۔ وہ ایک آزاد بلوچ سماج کیلئے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
آج شعور اس حد تک ابھرا ہے کہ اس خونی لمحے میں نوجوان پہ در پہ اس جنگ حصہ بنتے جارہے ہیں، جو انہیں کامیابی کی طرف لے جائے گا۔ نوجوانوں کو اپنے صلاحیتوں بخوبی کا اندازہ ہے اور انہیں اپنے قابلیت پر مکمل یقین ہے کہ وہ ایک دن ضرور دشمن کی کمر توڑ دیں گے۔
کمانڈر قذافی اپنے سماج کے دیگر نوجوانوں کی طرح اپنا گھر بسا سکتے تھے لیکن خون آلود بلوچستان کیلئے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ ان کا ایک شعوری فیصلہ تھا جس نے اس کو اپنے تجربے سے بھی زیادہ زمہ داری لینے پر بخوشی آمادہ کیا۔ وہ ذمہ داری جس کو آپ نے شہادت تک بہ خوبی سر انجام دیا۔
آپ یہ بات ضرور جانتے تھے کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے بندوق کی گھن گرج کم نہیں ہوگی کیونکہ آپ کے پرعزم ساتھی آج بھی محاذ پر بہادری اور عزم کے ساتھ لڑرہے ہیں، آپ کا دشمن کبھی بھی آپ کی زمین پر فتح کا جشن نہیں منا سکتا، فتح کا جشن آپ کی سرزمین کے فرزند ہی منائیں گے۔
قذافی آپ کی محبوب جیسی بیوی اس لئے نہیں روئی کہ آپ شہید ہوچکے ہیں کیونکہ وہ آپ کا آخری دیدار نہ کرسکے، وہ اس خوف زدہ ماحول میں بھی آپ کی شہادت پر فخر کر رہی ہے۔
وہ برملا کہہ رہی ہے کہ وہ ایک بار پھر دلہن بن گئی ہے کیونکہ آپ کی محبوب ایک بہادر ہے جس نے گولیوں کی گھن گرج و ہیلی کاپٹروں کی خوف پھیلانے والی ماحول میں ایک مرد سے بڑھ کر بہادری دکھائی تھی اور آپ کے ساتھیوں کو دشمن کی گھیرے سے نکال دیا تھا وہ آج بھی وہی شیر زال ہے۔ اس کے خوابوں میں تم آج بھی زندہ ہو تم تب تک اس کے خوابوں میں زندہ رہو گے جب تک آپ کے پرعزم ساتھی دشمن سے نبرد آزما ہیں۔
قذافی! شہزاد و سراج سے یہ ضرور کہنا کہ آپ جس مقصد کیلئے فدائی بن گئے تھے، وہ مقصد آپ کے ساتھی بہادری کیساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔