پشتون تحفظ موومنٹ رہنماوں کی وی بی ایم پی کیمپ کا دورہ

390

پشتون تحفظ موومنٹ کے وفد نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4060 دن مکمل ہوگئے۔ پی ٹی ایم کے وفد کے علاوہ این ڈی پی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، ڈاکٹر عبدالحکیم بلوچ، میر مہیم خان بلوچ، شاہ زیب بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

پی ٹی ایم رہنماوں کا کہنا تھا کہ محسن داوڑ کے دورے کا مقصد مظلوم قوموں کے درد کو بانٹنا تھا کہ بلوچ اور پشتون بھائی چارے کو قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کا سہارے بنیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حیات بلوچ، برمش اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوجائے۔ بلوچ اور پشتون اس خطے پر ایک طرح کے ناانصافیوں کے شکار ہیں، جس طرح یہاں لوگوں لاپتہ کیا جاتا ہے اسی طرح وہاں پر بھی یہی صورتحال ہے۔

پی ٹی ایم رہنماوں نے کہا کہ محسن داوڑ کو اسلام آباد ائیر پورٹ پر روکا نہیں گیا تاکہ یہاں کوئٹہ میں انہیں روک کر بلوچوں اور پشتونوں کو پیغام دیا جاسکے۔ لیکن مظلوموں کی آواز کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ دشمن یہ نہیں چاہتا ہے کہ بلوچ اور پشتون ایک ہو، آج سے نہیں بلکہ سالوں سے ہمیں جدا کرنے کی کوشش کی گئی جس میں وہ ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے کہا مظلوم اقوام کو ناانصافیوں کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھانی ہوگی کیونکہ ظالم کا مقابلہ متحد ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ منظور پشتون کے بعد محسن داوڑ کو بلوچستان میں داخل ہونے نہیں دینا ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتی ہے۔ ہم موثر طور پر اپنی آواز دنیا تک پہنچائینگے۔

خیال رہے محسن داوڑ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ان کے بلوچستان میں داخلے پر پابندی کے حوالے سے کہا ہے کہ میرے کوئٹہ کے سفر میں مختلف گروپس کے ساتھ بہت ساری ملاقاتیں تہہ تھیں جن میں جسٹس فار برمش، چمن متاثرین، حیات بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔ لیکن مجھ پر ریاست کی طرف سے یہ باور کروایا گیا کہ اس ملک میں قوانین اور حقوق کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے سے مجھے زبردستی ایک ریسٹ ہاؤس لے جایا گیا کیوںکہ وہاں واپس آنے والی پروازیں نہیں تھیں انہوں نے پوری رات مجھے حراست میں رکھا۔ سیکیورٹی عہدیداروں کو اس حقیقت سے خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ میں مظلوموں کے لئے بول رہا ہوں اور بطور ایک پشتون کہ بلوچ تک پہنچ رہا ہوں۔ Divide and Rule پر آج بھی ویسے ہی عمل ہورہا ہے جیسے 1947 سے پہلے ہورہا تھا۔