نام نہاد سیاستدان و دانشور – نوروز لاشاری

270

نام نہاد سیاستدان و دانشور

تحریر: نوروز لاشاری

دی بلوچستان پوسٹ

کالونائزر جب کسی ملک کے لوگوں پر قابض ہوتا ہے تو وہ طاقت کے استعمال کیساتھ نصاب، تاریخ، معاشیاتِ اور ثقافت کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مقامی افراد لمبے عرصہ تک لوٹ مار پر بول ہی نا سکیں۔ اس قبضے کے دوران وہ کئی نئی منطقیں گھڑتا ہے اور مقامی افراد میں ہی اپنے لوگ پیدا کرتا ہے۔ جو کہ لفاظی گھڑ کر مسائل کو گھمبیر بناتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مقامی افراد کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فرانز فینن نے انہی افراد کا ذکر اپنی کتاب “افتادگان خاک” میں کیا اور مقامی افراد کو تین اقسام میں تقسیم کیا، جس میں بتایا کہ یہ تین قسم کے لوگ کیسے کالونائزر کی مدد کرتے ہیں۔ دوسری قسم میں وہ مقامی دانشوروں کا بتاتے ہیں کہ ان کو کالونائزر مقامی افراد میں سے ہی بھرتی کرتا ہے اور وہی “مقامی دانشور” کالونائزر کی سوچ کا مقامی افراد میں ترجمانی کرتا ہے۔

بلوچ قومی تاریخ کو دیکھا جائے تو کئی کتابیں ایسے دانشوروں کی لکھی ملیں گی، جن میں پلانٹ کیے گئے ایک لفظ کا اثر کئی صورتوں میں آج ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے ہی کئی ایسے افراد ہیں جو پاکستانی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا حصہ رہ چکے ہیں یا خود کو دانشور کہلواتے ہیں وہ ادا کررہے ہیں۔ میں اپنی باتوں کا محور ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے ایک سیاسی اور نام نہاد دانشور کے عمل پر بات کروں گا جن کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔

کچھ دہائیوں پہلے ایک نامی گرامی شخصیت غوث بخش بزنجو بلوچستان کے علاقے نال سے اُٹھ کر ملتان تشریف لائے اُن کا ارادہ پنجاب کو تقسیم کرنے کا تھا۔ انہوں نے آکر ایک نیا شوشہ پیدا کیا کہ اب سرائیکستان بنایا جائے اور کچھ سوچے بغیر ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو کنویں میں دھکیل دیا گیا۔ اب اُس لفظ کے اثرات یہ ہیں کہ بلوچ اکثریتی علاقوں کو اِس زبان کے نام سے بننے والے صوبے میں ضم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ کئی نوجوان اپنی شناخت کے بارے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ان نقصانات کا ازالہ ڈیرہ غازی خان و راجن پور کا بلوچ پچھلے کئی سالوں سے کررہا ہے۔ اگر یہ غلطی نا کیجاتی تو یہ وقت بچ جانے کیساتھ ساتھ کنفیوز دانشور جنم نا لیتے۔

ایک اور واقعہ جو چند عرصہ پہلے ہوا۔ ڈیرہ غازی خان سے کچھ دوست سردار اختر مینگل سے ملنے گئے اور اُن میں سے ایک دوست نے سوال کیا۔ سردار صاحب جب آپ سینڈک، سوئی اور گوادر کا ذکر کرتے ہیں تو اُس میں ڈیرہ غازی خان سے نکلنے والے جپسم ( مکمل کوہ سلیمان)، یورینیم (بغل چُر ڈیرہ غازی خان)، تیل و گیس (ڈھوڈک، روڈو اور ماڑی فیلڈز) کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ سردار اختر مینگل نے فرمایا کیا اُدھر سے کچھ نکل رہا ہے؟ دوست کہتا ہے میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ یہ بھی خود ساختہ قومی لیڈر ہیں۔

اسی طرح ایک نئے نویلے نام نہاد دانشور عابد میر منظرعام پر آئے ہیں اور چند روز پہلے ہونے والے ایک واقعہ جس میں 6 پنجابیوں کو بلوچ فورسز نے گرفتار کیا تھا، ان کے رہائی کے اپیل میں موصوف نے لکھ دیا کہ یہ “سرائیکی بلوچ” ہیں، ان کو چھوڑ دو۔ گذشتہ دن ایک اور تحریر لکھ ڈالی “سرائیکی وسیب کے بلوچ طلباء ملتان بلوچ کونسل کے کیمپ میں بیٹھے ہیں”. سرائیکی ایک زبان ہے جس کو لاکھوں بلوچ استعمال کرتے ہیں۔ کسی قوم کے لیے ہرگز یہ لازم و ملزوم نہیں کہ وہ ایک زبان بولے۔ اگر زبان سے شناخت ہوتی ہے تو رخشانی بلوچ، براہوئی بلوچ، عربی بلوچ، فارسی بلوچ، کرمانجی کرد، سورانی کرد یا پیلوانی کرد جیسی ٹرمز بھی درست ہونگی جوکہ درست نہیں ہیں۔

اسی طرح جو بلوچ طلبا بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے کیمپ کو جوائن کررہے ہیں وہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور “سرائیکی وسیب” نہیں ہے (اسی پوسٹ کو ذولفقار ذلفی نے بھی شئیر کیا)۔ منگھڑت دانشوروں کے علم میں ہونا چاہیے کہ جب سے یہ علاقے بلوچستان سے جُدا کیے گئے ہیں۔ تب سے ہی یہاں کی عوام بلوچستان میں شمولیت کی خواہاں ہے۔

عابد میر نے آگے جاکر تحریر تو بدل لی لیکن انہوں نے ڈیرہ غازی خان کے مقامی افراد کو بھونکنے اور نفرت پھیلانے والے جیسے فتوؤں سے نوازا۔

ریاست نے بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی بہت کوشش کی کبھی علاقائی نام پر کبھی قبیلوں میں تو کبھی زبانوں میں۔غوث بخش بزنجو کی غلطی جو اُنہوں نے کئی دہائیوں پہلے کی تھی۔ وہ اب ایک درخت بن چکی ہے۔ ہمیں پالیسیوں کو سمجھنے کے ساتھ ریاستی ہمنوا پلانٹڈ سیاستدانوں اور دانشور جو مختلف اشکال میں نقصان دے رہے ہیں اور مزید اس کا موجب بن رہے ہیں۔ اُن کی راہ ہموار کرنے کی بجائے کردار کشی کرنی ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔