وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کمیشن کی 11 سالہ کارکردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیت سامنے آجاتی ہے کہ جن لاپتہ افراد کے کیسز میں شوائد زیادہ ہے ان کیسز قانونی کاروائی کے بجائے ان کیسز کو کمیشن سے خارج کرتا آرہا ہے اور جن کیسز میں شواہد نہیں ہے ان میں شواہد ڈھونڈ کر لاپتہ افراد کے مسئلے کو خراب اور پیچیدہ بنانے کی کوشش کرتا آرہا ہے
نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن کو اسلئے بنایا گیا تھا کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ذمہ داروں کا تعین کرکے جبری گمشیدگیوں کے روک تھام کے حوالے سے اپنی تجاویز حکومت کو فراہم کرے تاکہ حکومتی سطح پر اس غیر آئینی اقدامات کے روک تھام کے حوالے سے قانون سازی کی جاسکے لیکن افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ کمیشن نے اپنا کام ان 11 سالوں میں بھی نہیں کیا بلکہ لاپتہ افراد کیسز میں بار بار جی آئی ٹی کروانے کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کے لواحقین کے بے عزتی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوچکے ہیں
نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران کو یہ احساس تک نہیں کہ لاپتہ افراد کے لواحقین ایک طرف تو اپنے لاپتہ پیاروں کی جبری گمشدگی کی وجہ سے ذہنی اذیت و مالی مشکلات کے شکار ہے دوسری طرف غریب اور مسکین لواحقین قرضہ لے کر بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اس امید پر آجاتے ہیں تاکہ انہیں انصاف مل سکے لیکن کمیشن کی طرف سے لاپتہ افراد کے کیسز کو طول دیکر پیچیدہ کرنے اور کمیشن کے سربرہ اور ممبران کے رویے کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین شدید ذہنی دباؤ کے شکار ہے۔