بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے بیان میں پاکستانی ریاست کی جانب سے تمپ اور دشت میں بلوچ فرزندوں کی شہادت اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کو انسانیت سے عاری عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ زندہ قومیں حالات جنگ میں زندہ قوموں کی اقدارکا احترام کرتے ہیں۔ بلوچ ستر سالوں کے دوران قابض کے خلاف کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔ موجودہ جنگ کو دوعشرے پورے ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک دشمن کے کسی بھی سپاہی کی لاش کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے نہیں آیاہے کیونکہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور بلوچ قوم کے مسلح بازو اپنے قومی اقدار اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ ہم کسی سطح پر لاش کی بے حرمتی کو ناقابل معافی جرم تصور کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا جہاں بلوچ اپنے قومی اقدار اور عالمی کنونشنز کی پاسداری کو اولیت دیتے ہیں وہاں ہماری دشمن ان اقدار سے تہہ دست عاری ہے۔ ایسے بے شمار واقعات بلوچ قومی حافظے میں محفوظ ہورہے ہیں کہ دشمن فوج نہ صرف نہتے لوگوں کو قتل کررہا ہے بلکہ میدان جنگ میں شہید ہونے والے بلوچ فرندوں کے لاشوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ شہیدشیہک جان، شہید میجرنورا اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کو فوجی ٹرکوں کے پیچھے باندھ کئی کلومیٹر تک گھسیٹا گیا۔ ان کے علاوہ جہاں بھی میدان جنگ میں بلوچ فرزند مارے جاتے ہیں دشمن ان کے لاشوں کی تذلیل کرتا آیا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا پاکستان بلوچستان میں مختلف صورتوں میں جنگی جرائم کا ارتکاب کررہاہے۔ ان میں ایک شہدا کے لاشوں کی بے حرمتی ہے۔ گزشتہ رو ز عرفان بلوچ اور نورخان بلوچ دشمن کے ساتھ دوبدوجنگ میں شہیدہوئے لیکن دشمن نے نہ صرف لاشوں کی بے حرمتی کی بلکہ لاش ورثاکے حوالے سے کرنے سے انکار کردیا اور انہیں خود دفن کردیا۔ اس پر علاقے کے لوگ دھرنے پر بیٹھ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ وہی دشمن ہے جس نے نواب اکبر خان بگٹی کی لاش کو تالا لگا کر ان کے خاندان اور بلوچی رسم و رواج سے دور رکھا گیا۔ شہید غلام محمد بلوچ کے گھر اور مقبرہ پر کئی حملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شہدا کی قبریں توڑ دی گئی ہیں۔ یہ غیرانسانی عمل اور جنگی جرم ثابت کرتا ہے کہ دشمن نہ صرف بلوچ سے خوف زدہ ہے بلکہ بلوچ شہداء کے مقبرے بھی دشمن کے اوسان خطاکررہے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان بلوچستان میں مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ بلوچ قوم کے خلاف اجتماعی سزا کے پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت ہزاروں لاپتہ بلوچوں میں سے ایک بڑی تعداد کی اجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں۔ گوکہ اجتماعی قبروں پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور چند عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے رپورٹس اور مذمتی بیان سامنے آئے ہیں لیکن عملا پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان مسلسل اس عمل کو دُہرا رہا ہے۔ اس غیر انسانی عمل کا روک تھام انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی طاقتوں کا فرض بنتا ہے، کیونکہ یہ نسل کشی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اگر اس ضمن میں خاموشی برقرار رہی تو بلوچ نسل کشی اور دیگرجنگی جرائم میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا ۔