قید سے رہائی تک کی داستان
تحریر: قندیل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فروری دوہزار انیس کی چھبیس تاریخ تھی جمعرات کے دن کو دو بجے کا وقت تھا۔ میں اپنے زمینوں میں کام سے فارغ ہوکر اپنے گھر آیا تھا۔ تو گھر والوں نے مجھے بتایا کہ آج پاکستانی فوج ہمارے گھر آئے تھے، آپ کا پوچھ رہے تھے ۔ہم نے کہا ہے کہ وہ گھر میں موجود نہیں ہے ۔ تو انہوں نے کہا ہے جب وہ گھر آئے تو اسے کہنا ہمارے کیمپ میں آ جانا اگر نہیں آیا تو ہم خود آئینگے، تو آپکا خیر نہیں ہوگا۔
گھر والوں سے یہ بات سن کر میں پریشان ہو گیا کہ مجھے کیمپ میں کس لئے بلا رہے ہیں؟ میری بلوچستان کی جہد آزادی کی سیاسی اور مسلح تحریکوں سے کوئی وابستگی تو نہیں ہے تو آخر مجھے کس بات پر بلا رہے ہیں ؟دل میں مختلف سوچ پیدا ہوئے اور پریشانی میں مبتلا ہو گیا مجھے کس لئے (فوجی) اپنے کیمپ میں بلا رہے ہیں؟
میں ابھی انہی ادھر ادھر کی سوچوں میں پریشان ہی تھا کہ گھر کی پیچھے کی طرف سے کچھ گاڑیوں کی آواز آنے لگی تو میں نے اٹھ کر کھڑکی سے جھانکا کہ کچھ گاڑیاں تھی جو سیدھے میرے گھر کے سامنے آکر رکھ گئے۔
دونوں گاڑیوں سے کچھ فوجی اتر کر میری طرف دوڑ کر آ گئے، کچھ میرے گھر کے آس پاس کے گھروں کے آگے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے، کچھ فوجی گھروں کے آگے پیچھے الرٹ ہوگئے۔
تین فوجیوں نے میرے پاس آکر مجھ سے کہا کہ آپ کا کیا نام ہے ؟
میں نے اپنا نام بتا دیا۔
والد کا نام پوچھا میں نے والد کا نام بتا دیا۔
بچے کتنے ہیں ؟
میں نے کہا چھ بچے ہیں۔
کہاں ہے ؟
میں نے اپنے بچوں کی طرف اشارہ کرکے کہا وہ ہیں، سب سوالوں کے جواب دینے کے بعد میرے قمیض کو اتارکر میرے آنکھوں پر پٹی بنا کر باندھ دیا۔ دو فوجیوں نے مجھے گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال دیا۔ ساتھ ہی ایک زرو دار لات مارتے ہوئے ادھر بیٹھو کہہ کر ایک غلیظ گالی بھی بھک دی۔
میںرے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی لیکن مجھے اتنا اندازہ ہو رہا تھا کہ مجھے کس سمت لے کر جا رہے ہیں۔ گاڑی کے چلنے سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا، کیونکہ وہ گاڑی رک رک کر چلا رہے تھے۔ مجھے پتہ تھا کہ کونسے کیمپ لے کر جا رہے ہیں کیمپ میرے گھر سے چار کلو میٹر دور تھا گاڑی آہستہ آہستہ چل کر اندازاً ایک گھنٹہ کے لگ بھگ کیمپ میں پہنچ گئ۔
سب فوجی گاڑی سے اتر گئے مجھے دو فوجیوں نے ہم آواز بلند ہوکر کہا اٹھو میں اٹھ گیا ایک نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ میرا پاؤں پھسل رہا تھا میں نے گرنے سے بچنے کی کوشش کی گاڑی کے باڈی کو دونوں ہاتھوں سےپکڑ کر آہستہ آہستہ اترنے لگا۔
نیچھے اترا تو مجھے دو فوجی کیمپ کے اندر لے کر گئے، کیمپ کے اندر ایک بڑا کمرہ بنا تھا کمرے کے اندر اور چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے تھے۔ ہر خانے میں ایک قیدی تھا آنکھوں پر پٹی ہاتھ پاؤں میں ہتکھڑی لگا رکھا تھا۔ پورے کیمپ میں ایک ہی واش روم تھا دن میں ایک دو دفعہ اگر پیشاب لگ جاتا تو آواز دیتا تو ایک پھیری دینے والا فوجی آکر ہاتھ پکڑ کر واش روم لے جاتا اور رات کے نو دس بجے کے بعد جس قیدی کو پیشاب لگ جاتا تو اسے صبح تک اپنا پیشاب روک کر رکھنا ہوتا تھا کوئی فوجی اس وقت کسی قیدی کو واش روم نہیں لے جاتا۔
جسم کے کپڑے پہلے دن کو اتار دیے تھے ایک لچک والی پتلون پہنے کے لیے دی گئی تھی۔ جسم کے غیر ضروری بال بڑگئے تھے، کاٹنے کی اجازت نہیں تھی، اور نہ میں یہ کہہ سکتا تھا کہ مجھے اپنا بالوں کی صفائی کرنی ہے ذرا وقت دے دو۔ بال چبھتے تو راتوں کی نیند حرام ہوجاتی یا اگر رات میں پیاس یا پیشاب لگ جاتی تو پوری رات آنکھوں کی نیند حرام ہوجاتی تھی۔ جگہ بھی اتنی تنگ تھی گرمی سے پورے جسم کی جلد اتر چکی تھی اور جسم میں جلن تھی، نہ ایک گلاس پانی مانگ سکتے تھے نہ پانچ دس منٹ واش روم جانے کے لئے ٹائم مانگ سکتے تھے۔
ہر قیدی کو الگ طریقے سے سزا دیتے تھے، جس طریقے سے فوجیوں کا دل چاہتا ٹارچر کرتے، آٹھ مہینے تک جیل میں رہ کر فوجیوں کی نفسیات سمجھ چکا تھا۔لوگوں کو لاپتہ کرکے ٹارچر سیلوں میں ازیتیں دینے کا مقصد لوگوں کے دل میں خوف پیدا کرنا ہے تاکہ وہ جہد آزادی سے خود بھی دور رہیں نہ کسی جہد کار کو مدد فرائم کریں اور نہ ہمدردی رکھیں۔ اپنے آزادی کی جہد سے زیادہ ہمارے سہولت کار بن کر بلوچ قوم کے آزادی کی جہد کو کچلنے میں ہمارے دست راست بن جائیں۔
لاپتہ ہونے سے پہلے کچھ لوگوں سے یہ سنتا تھا جو بندہ بلوچ مسلح اور سیاسی دوستوں سے رابطہ رکھتا ہے وہی لاپتہ ہوتا ہے، لیکن میں نے جو چیز دیکھی تھی وہ اس بات سے متضاد تھا
فوجی یہ نہیں دیکھتےکہ کس کا تعلق کس تنظیم سے ہے بلکہ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کون بلوچ ہے۔کون بلوچ دوست اور غیرت مند ہے کون ظلم کے خلاف بول سکتا ہے۔
میرے شروعاتی دن کا سزا یہ تھا کہ مجھے دو دن دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا تھا میرے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ کھڑے تھے سب کی آنکھوں میں پٹی باندھی ہوئی تھی۔ سب کو ایک قطار میں کھڑے کر دیا تھا۔ دو تین فوجیوں کے ہاتھوں میں پینبلٹ تھے وہ ہمارے پیٹھ پر باری باری مارتے رہے ۔ پینبلٹ کندھے پر لگ جاتا آنکھیں جل جاتی تھی، جسم کا جلد اسکے جلن سے چھل جاتا۔ کوئی بے بس بے گناہ قیدی یہ پوچھ نہیں سکتا کہ پینبلٹ مارنے والے جناب ! میرا قصور کیا ہے ؟ بتا سکتے ہو ؟
دو دن مسلسل دھوپ میں کھڑے ہونے سے پاؤں کی نسوں میں درد ہو رہا تھا جسم کے اوپر کی کھال تنگ کمرے کی گرمی کی وجہ سے انتہائی کمزور ہو چکا تھا۔ پینبلٹ لگنے کی وجہ سے جسم کا جلد لال لال ہوکر اتر چکا تھا ہڈیوں میں درد گوشت اور جلد میں جلن تھا۔ دن رات آنکھیں بند ہونے کا نام نہیں لیتے، تکلیف جب بہت زیادہ ہوجاتی تو زور زور سے آہ اور چیخ نکال تھے پھر پھیری کرنے والا فوجی پاس آ کر پہلے (چپ کرو) بولتا اور بعد میں پوچھتا کیا تکلیف ہے؟ ہم تکلیف جو بھی بتا تھے جواب میں وہ یہی بولتے کچھ نہیں ہوتا۔
پھر فوجی ہمارے چیخیں اور تکلیف دیکھ کر یہ سمجھتے یہ ساری رات آرام نہیں کرسکے گا اور ہماری نیند بھی خراب ہوجائے گی ، تو پھر ایک آرام کا انجیکش لگا دی گئی۔ انجیکشن لگنے سے بے ہوش ہوگیا کوئی درد کوئی تکلیف کچھ پتا نہیں چلا حتاکہ رات کو پیشاب بھی پتلون میں ہی آئی تھی۔
ذہنی ٹارچر کا طریقہ کار مختلف تھا، ہر قیدی کو پہلے جسمانی ٹارچر کرتے، بعد میں اسے ذہنی ٹارچر کیا جاتا۔جب میرے ذہنی ٹارچر کا دن آیا، تو مجھےصبح چھ بجے نیند سے اٹھاکر ایک کپ چائے دی گئی، ایک فوجی نے آکر میرے پاؤں کھول دئے اور ہاتھ پکڑ کر کمرہ میں لے جایا گیا، جہاں ایک بڑے ٹیبل پر لِٹا دیا گیا۔
تخت پر لِٹانے کے بعد ہاتھ پاؤں کو مضبوطی سے باندھ لیا گیا، مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج مجھے پانسی پر لٹکایا جارہا ہے۔ ایک میجر ٹیبل کے قریب آیا، نام اور والد کا نام پوچھا، میں نے بتا دیا۔ میجر نے دوسرے فوجی کو آواز دی کہ پینبلٹ مجھے دو اس نے جب میجر کو پینبلٹ دیا، تومیجر نے مجھے ایک پینبلٹ مار کر کہا یہ کیا ہے ؟ میں نے جواباً کہا کہ یہ پینبلٹ ہے۔قہقہے لگا کر میجر نے کہا کہ بڑا سمجھ دار ہے یہ بلوچ تو۔
ایک سرنج لایا گیا جو بھرا ہوا تھا، اسے اٹھا کر کہا کہ بلوچ یہ سوی زہر سے بھر ہوا ہے۔ میں اگر آپ کو ماردوں تو پندرہ منٹ کے اندر آپ مرجاؤ گئے۔
ٹھیک ہے؟
آپکےبچے کتنے ہیں؟
چھ بچے ہیں۔
سب سے بڑا بیٹا ہی بیٹی ہے ؟
بیٹی ہے ۔
والدین بوڑھے ہیں یا جوان ہیں ؟
سر بوڑھے ہیں۔
یہ سارے سوالوں کے جواب دینے کے بعد مجھے کہا کہ۔
دیکھو بلوچ!
ہم نے آج آپ کو قتل کرنے کی مکمل تیاری کی ہے، اس سرنج کو زہر سے بھر کر لایا گیا ہے آپ کو سرنج لگاکر پندرہ منٹ کے اندر آپ کو ختم کردیا جائیگا۔ لیکن آپ کہہ رہے ہیں میں چھ بچوں کا باپ ہوں بیٹیاں چھوٹی چھوٹی ہیں۔ اس لئے ہم آپ کو مارنے کے بجائے چھوڑ دیتے ہیں، اب بات یہ ہے کہ ہم آپ سے جو پوچھیں گئے وہ سب سچ سچ بتا دو تو آپ کو چھوڑ دینگے۔
بلوچ آپ یہ بتاؤ جس دن تمھارے گھروں کے قریب میں ہمارے ساتھیوں پر حملہ ہوا تھا اس دن کس کس نے حملہ کیا تھا؟ جس کی ذمہ داری تمھاری بی ایل ایف نے مانی تھی؟ اس دن سرمچاروں نے کس کے گھر میں کھانا کھا کر ہم پر حملہ کیا تھا ؟
پتہ نہیں سر میں اس دن اپنے کھیتوں میں تھا، میں سارہ دن اپنے کھیتوں میں کام کرتا ہوں، مجھے نہ کسی کا پتہ ہے نہ میں خود ایسی کسی واقعہ میں ملوث ہوں۔
دیکھو ہمیں سب کچھ پتہ چل جاتا ہے ہمارے دفاع والے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے، انکی نظریں سب لوگوں پر ہے، کون کیا کر رہا ہے۔ میں آپ کے فائدے کے لئے بول رہا ہوں کیونکہ ہمیں آپکے قتل کا آرڈر مل گیا ہے، لیکن ہم آپکو مارنا نہیں چاہتے ہیں، کیونکہ آپکے بوڑھے والدین اور چھوٹے بچے ہیں ۔مجھے آپ مارنا چاہیں تو مار سکتے ہیں، لیکن میرے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں جو آپ پوچھ رہے ہیں۔
چلو یہ معلومات تو ہے کہ سرمچاروں کو مدد کون کون دیتا ہے؟ کیا کیا دیتے ہیں ؟ لے کر جانے کے لئے خود آتے ہیں ؟ یا آپ لوگوں میں سے کوئی پہنچاتا ہے؟
سر میں نے کسی سرمچار کو نہ کھبی دیکھا ہے نہ کسی کو مدد دی ہے نہ ہمارے محلے میں کسی کے گھر میں کوئی سرمچار آئے ہیں۔
سر جو لڑکے سرمچاروں کے ہمراہ ہیں، انہیں آپ خود جانتے ہیں، انکے گھروں کو آپ نے جلایا ہے۔ تمہیں پتا ہے سرمچار کون کون ہیں۔ وہ یہاں نہیں ہیں، گھروں میں نہیں آتے ہیں پتہ نہیں کہاں ہے۔
بلوچ ہم صرف آپ کی رہائی کے لئے ہی بول رہے ہیں، آپ چاہتے ہونا کہ میں رہا ہو جاؤں؟ تو آپ کو سچ بتانا ہوگا، کیونکہ آپ جو بھی سچ بتاؤ گے وہ ہم لکھ کر بڑے افسر کو دینگے وہ آپکو کل تک رہا کردیگا۔ سر میرے پاس کونسی معلومات ہے جو میں بتاکر رہا ہوجاؤں گا میں آپ کو سچ سچ بتا رہا ہوں میرے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں، جو سرمچاروں کے متعلق ہو نہ ہی میں ایسے کسی کام سے کوئی واستہ رکھتا تھا۔
چیختے چلاتے ہوئے ایک گندی گالی بک کر کہا بلوچ تجھے عزت اور شرافت راس نہیں آتی کب سے میں شرافت سے بات کر رہا ہوں بتا دو، شام کو تجھے چھوڑ دینگے، ہر بات کا یہی جواب دیتا ہے “بس معلوم نہیں”۔
میں نے معصومیت اور سسکتے ہوئے لہجے میں کہا سر مجھے پتہ ہوتا تو میں بتا دیتا۔ ایک اور گندی گالی بک کر کہا یہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں، سب تمھارے اپنے محلے کے لوگ ہیں آسمان سے کوئی آکر ہمیں نہیں مار رہا۔ بک بک کرکے یہاں سے جانے لگا تو پھیری دینے والوں کو کہا ماردو یہ نہیں سدھرتا، نہیں سمجھتا ہے۔
پھیری دینے والے جلاد، بے رحم اور ناسور نے مجھے کروٹ بدلنے کو کہا میں نے اللہ کا واسطہ دیکر کہا مجھے مت مارو اللہ کے واسطے مجھے مت مارو کی چیخ و فریاد شروع کی۔
دونوں نے میری کچھ نہ سنی زور زور سے ایک مضبوط پینبلٹ سے میرے پیٹھ پر بے رحمی سے مارنا شروع کیا کافی دیر تک مارتے رہے اور میں بےہوش ہوگیا، جب ہوش میں آیا تو مجھے ڈرپ لگا ہوا تھا ایک نرم کپڑا ٹھنڈا پانی سے گیلا تھا سینہ پر رکھا ہوا تھا، ڈرپ ختم ہونے کے بعد شام کا وقت ہوا تو مجھے پہلے والے کمرے لے جایا گیا۔
پلیٹ میں تھوڑا سا دال اور دو کچھی روٹی لاکر کہا اٹھو کھانا کھاؤ جسم کی درد اور جلن سے بھوک مٹ چکی تھی، میں نے کہا روٹی نہیں کھا سکتا ہوں۔ سب کمروں سے یہی آواز سنائی دے رہی تھی اٹھو کھانا کھاؤ، پھیری کی آواز سن کر میں نے کہا واش روم جانا ہے۔ کسی نے میری فریاد نہ سنی اسی انتظار میں رہا کوئی آ کر مجھے واش روم لے جائے گا، لیکن کوئی نہیں آیا، آنکھ لگ گئی اور سو گیا۔ رات کو جب آنکھ کھولی تو پتلون اور نیچے بستر گیلا تھا، سمجھ گیا تھا کہ میرا پیشاب پتلون میں خارج ہوا ہے۔ صبح جب پھیری دینے والا شخص آیا میں نے کہا رات کو میں بے ہوش ہوگیا تھا، میرا پیشاب پتلوں میں خارج ہوگیا تھا، پتلون گیلا ہے، دوسرا پتلون لاکر دیدو۔
کچھ گالی دیکر کہا کہ اس پتلون آپ کا باپ دھوئے گا۔ ہاتھ پکڑ کر واش روم لے گیا دوسری پتلوں پہن کر واپس اسی بستر پر لاکر پھینک دیا۔ ایک کپ چائے لاکر دیا میں چائے پی کر دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ تقریباََ ساڑھے نو بجے کے وقت پھر سے وہی میجر میرے پاس آ کر مجھے بالوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر بولا بدمعاش بلوچ کل مزہ آیا تھا ؟
یہ سزا یہ سلوک میرے ساتھ آٹھ مہینوں تک جاری رہے مختلف سوال پوچھنے پر جب ہر ہمیشہ خود کو انجان ظاہر کرتا رہا اور آخر تک کوئی ثبوت نہ ملنے پر مجھے کہا کہ آج آپ کو چھوڑ دینگے، میں نے کہا ٹھیک ہے۔
گھر کال کرکے میرے ایک بھائی اور ایک کزن کو بلایا تھا مجھے ٹارچر سیل سے نکال کر باہر ایک کھلے کمرے میں لائے، بھائی سے ملوایا اور کہا آج کے بعد اسکا زمہ دار تم ہو، تم روزانہ میرے کیمپ میں آرہے تھے ابھی میں اسے چھوڑ رہا ہو اسے کہنا کسی پارٹی سے واسطہ نہ رکھتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھنا۔ بھائی نے جواباً کہا ہم نے نہ پہلے کسی سے واسطہ رکھا تھا نہ اب رکھینگے۔
بھائی کو پانچ سو روپے دیکر کہا کہ اسکے بال کٹوا دیں، بال کٹوانے سے پہلے گھر مت لیکر جانا، اور اسکی تصویر کسی سے شئیر مت کرنا۔ آٹھ مہینے تک مختلف راز پوچھنے کے لئے مجھے مختلف جسمانی اور زہنی ٹارچر کیا گیا، آخر اللہ نے مجھے اس اذیت گاہ سے رہائی عطا فرمائی۔
آخر میں قارئین سے گزارش کرتا ہوں اگر کوئی خدانخواستہ ان ظالم کے ہاتھوں تفتیش اور راز لینے کے لئے لاپتہ ہو، تو کھبی یہ مت سمجھنا ہم راز بتا دینگے، تو ہمیں رہائی ملے گی، چائے جتنا ٹارچر کریں کوئی بھی راز نہ دینا۔ اگر اس کے پاس کوئی ثبوت موجود نہ ہو تو انہیں اپنے راز مت دیں۔ تو شاید کچھ مہینے کے بعد چھوڑ دیں، اگر کسی نے یہ سوچ کر راز دیے کہ مجھے رہا کر دیا جائیگا یہ آپکی غلط فہمی اور بھول ہے۔
یہ ایک سچی کہانی ہے، جو بلوچستان کے ضلع خضدار کے ایک بے گناہ کی کہانی ہے، جسے دوہزار انیس میں سرمچاروں کے ایک حملہ کے دو دن بعد ایک بڑے آپریشن میں لاپتہ کیا گیا تھا، اور آٹھ مہینے ٹارچر کرنے کے بعد اسے رہا کیا گیا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔