غیرت کے نام پر بڑھتے قتل – بختیار رحیم بلوچ

555

غیرت کے نام پر بڑھتے قتل

تحریر: بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم رسم و رواج کا ایک پابند اور باعزت قوم ہے اور ایک تاریخی تقافت، رسم و رواج، رہن سہن رکھتا ہے، ویسے دیکھا جائے، دنیا میں ہر قوم کا رسم رواج رہن سہن کا طریقہ ہوتا ہے، اسی طرح بلوچ قوم بھی مختلف ہے۔

زمانہ قدیم سے بلوچ قوم کا خواراک، پوشاک ادب ،رہن سہن ، شادی اور دوسرے تقریبات میں جو رسوم تھے وہ انتہائی پابندی پر منحصر تھے۔ موجودہ دور ایک ترقی کا دور ہے، ہم بلوچ قوم دنیا کے دوسرے قوموں سےتعلیم ،شعور، معاشی حساب سے پیھچے بچھڑے ہوئے ہیں۔

ہماری ناکامی اور دنیا سے بیگانگی کا ایک ہاتھ ہمارے معاشرہ کے صدیوں کے سخت رواج کا بھی ہے، کیونکہ ہم اپنے آپ کو غیرت مند قوم سمجھ کر اپنے بچیوں کو تعلیم دینا شرم محسوس کرتے ہیں اگر ایک پسماندہ اور تعلیم کے زیور سے نا آشنا معاشرہ میں ایک فرد شعور اپنے اندر پیدا کرکے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کی تعلیم کو انکا حق سمجھ کر پورا کررہا ہو تو پتہ نہیں جہالت میں پسے معاشرے پیٹھ پیچھے کیا کیا بات اور موضوع چلاتی رہتی ہے۔

موجود دور ہمارے بلوچ معاشرے میں شعور کے کچھ دریچے کھولے نظر آرہے ہیں، ہمارے بچیاں تعلیم، سیاست ، سماجی برائیوں کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپنے باشعور بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اگر بلوچ معاشرے کو ایک شعوری نظر سے دیکھ لیں تو ہمیں یہ بھی صاف نظر دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سماجی برائیاں ایک مضبوط تناور درخت کے مانند ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ انکی جڑیں زیر زمیں تک پہنچ چکی ہیں۔

ہمارے تعلیم یافتہ بہن بھائیوں کو اتنی ساری سماجی برائیاں کے جڑیں اکھاڑنے کےلیے کئی وقت درکار ہوتی ہیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی سماجی برائیاں اپنے جڑیں ایسے مضبوط کر چکے ہیں جو اب تناور درخت کی مانند میں ہیں۔

ان سماجی برائیوں میں نشہ، بچیوں کو تعلیم سے دور رکھنا، بغض، حسد ، قبائلی جرگہ، ذہنی غلامی، فرقہ واریت، لالچ، ہوس غیبت، بدنیتی، زمینی تنازعہ کا مسئلہ نسل در نسل سے تو جاری ہیں۔

لیکن موجودہ دور میں ایک اور سماجی برائی جنم لے کر زہریلی سانپ بن کر معصوم انسانی جانوں کو ڈستا جا رہا ہے ۔ جو ہے غیرت کے نام پر قتل اور اسکی وجوہات۔ غیرت کے نام پر قتل کی بڑتی ہوئی واقعات سماجی برائیوں کا ایک اہم مہلک نتیجہ ہے۔

بدقسمتی سے عزت اور غیرت کے حفاطت کا ٹھیکہ صرف عورت پر رکھا ہوا ہے، ویسے اسکی وجوہات کا کچھ حصہ مرد پر ہونا چاہیے لیکن معاشرے میں اس کی وجوہات روک تھام سے مرد کو کوئی واستہ نہیں۔ یہ صرف عورت کے ٹھیکے میں ہیں۔

ہمیں سماج میں برائی سے زیادہ اسکے وجوہات جاننا چاہیئے اگر وجوہات کا پتہ چلا تو اسکا حل بھی آسان ہوجاتا ہے۔

ویسے ہر برائی کا خاتمہ معاشرے میں مثبت سوچ کی تعلیم کے علاوہ کچھ نہیں، معاشرے میں تعلیم کو اجاگر کرنا ایک اہم نسخہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان برائیاں کو ختم کرنے میں ایک فرد واحد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کے ہر فرد کو ذہنی طور پر اسے روکنے کے لیے آگاہ ہونا پڑتا ہے۔

ان تعلیم یافتہ باشعور بہنوں اور بھائیوں کو ساتھ دینا ہوگا، جو کئی عرصہ سے ان برائیاں کی جڑوں کو کلہاڑی سے اکھاڑنے میں خون پسینہ بہا رہے ہیں۔

میں معاشرے میں نشہ اور غیرت کے نام پر قتل کی بڑھتی ہوئی واقعات، کسی کی عزت اور آبرو کی پامالی سے انتہائی افسردہ ہوں۔ اکثر زہن پر یہ بات سوار ہو جاتا ہے کہ بلوچستان میں پرنٹ الیکڑانک اور سوشل میڈیا بند ہوتے ہوئے ہر دو روز کے بعد کسی نہ کسی ضلع سے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات سوشل میڈیا میں پڑھنے کو ملتی ہے کہ فلاں ضلع میں شوہر نے غیرت کے نام پر بیوی کو قتل کر دیا یا بھائی نے غیرت کے نام پر بہن کو قتل کردیا۔

اندازہ یہ ہوتا ہے بلوچستان میں میڈیا کی پابندی کی وجہ سے سینکڑوں ایسے دلخراش واقعات دب کر مسل جاتے ہیں۔ جو سامنے نہیں آتے اور کچھ ایسے واقعات کو لوگ غیرت کا مسئلہ سمجھ کر کسی سے شئر نہیں کرسکتے ہیں وہ سامنے نہیں آتے ۔

ایک اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر سالانہ ایک ہزار سے زائد عورتیں قتل ہوجاتے ہیں۔ اور بلوچستان کا ضلع نصیر آباد سب سے زیادہ سرفہرست ہے۔

صوبہ بلوچستان میں سندھ کے سرحدی ضلع نصیر آباد ڈھاڈر ،سبی، لورالائی میں ہر دو چار روز کے بعد ایسے واقعات سوشل میڈیا میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل اور کسی کی عزت اور پر داغدار کرنے کے سبب اور اسکے روک تھام کیلئے پڑھے لکھے نوجوان زیادہ تر خاموش دکھائی دے رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں ہمیں اپنے سماج کو ایسے برائیوں سے نکالنے کے لئے کوشش کرنی چاہیئے۔ جس طرح معاشرے میں نشے کی روک تھام کے خلاف پڑھے لکھے بہن بھائیوں نے ایک موثر آواز بلند کر رہے ہیں۔

معاشرے میں کم علمی سے پیدا ہونے والے ایک بد قسمتی یہ ھے عزت کا سارا ٹھیکہ عورت کے کندھے پر رکھ دیا گیا ہے ۔دیکھا جائے سماجی برائیوں میں عورت سے زیادہ مرد کا ہاتھ ہوتا ہے

معاشرے میں ایک مرد ایک دن میں کتنی معصوم لوگوں کی عزت سے کھیل کر اپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھ کر قصہ کس طرح بلاججھک سناتا ہے۔ اپنی بہن بیٹی بیوی کو کسی کے ساتھ بات کرتے دیکھ لیں ہوش اڑ کر قتل کرنے تک آسرا نہیں کرتے۔

ایسے شخص اپنی بہن بیٹوں کو اس شک سے تعلیم سے دور کر رہے ہیں کہ لوگ ان پر بری نظر اٹھاتے ہیں لیکن یہی بد کردار ، شکی شخص دوسروں کی عورتوں کو جاتے ہوئے دیکھ کر پتہ نہیں کیا کیا سوچتا ہے۔

ہر عورت آزادانہ ماحول سے ہر تعلیمی ادارے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ پڑھ کر اپنا مستقبل سنوارنے کا حق رکھتی ہے۔ ہر ایک کو شکی اور غلیظ ذہنیت سے نکل کر دوسرے ممالک کے لوگوں کی طرح سائنسی ترقی اور تجرباتی سرگرمیوں میں شریک ہوکر اپنے قوم کا نام روشن کرنا چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔