بلوچ آرٹسٹ و اینکر پرسن شاہینہ شاہین کی قتل اور قاتل کی عدم گرفتاری کے خلاف جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کی جانب سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کردیا گیا۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی اور بھوک ہڑتالی کمیپ میں بڑی تعداد میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اظہار یکجہتی کی جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی۔
اس موقع پر جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کے رہنماؤں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تربت انتظامیہ قتل میں ملوث محراب گچکی کو تاحال گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔ شاہینہ شاہین کی قتل بلوچ خواتین کے لیے پیغام ہے کہ گھروں تک محدود رہو لیکن ہم یہ ہونے نہیں دینگے۔
احتجاجی کمیپ میں شریک لوگوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی اسیکنڈل، مکران میں ملک ناز، کلثوم اور اب شاہینہ شاہین واقعہ بلوچ خواتین کو خوف زدہ کرنے کی سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلوچ خواتین صرف روٹیاں پکانے کے لئے نہیں بلکہ آگے نکل کر معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
کمیپ میں بلوچ اور پشتون سیاسی و سماجی کارکنان، طلبہ تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
وہاں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔
جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے میں سول سوسائٹی کے نمائندے اور خواتین شریک تھیں۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر شاہینہ شاہین کو انصاف فراہمی کے نعرے درج تھے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے لیے انصاف ناپید ہوچکا ہے۔ ہم ہر دن سڑکوں پر ایک نئی تصویر کے ساتھ انصاف کے لیے نکل آتے ہیں لیکن ریاست ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا تربت پولیس یہ اعتراف کرچکا ہے کہ شاہینہ شاہین کی قاتل کے پیچھے طاقت ور لوگ ہیں جو انتظامیہ کے لیے باعث ندامت ہونی چاہیے کہ وہ بے بس ہے۔ مقررین نے کہا ہمیں کہا جاتا ہے یہ ریاست مدینہ ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاست مدینہ میں بلوچ خواتین اور بچے قتل ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شاہینہ شاہین قتل صرف ایک خاتون کی نہیں بلکہ روشن خیال اور سوچ کا قتل ہے۔ بلوچ معاشرے میں عورت کا جو مقام ہے اسے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہے۔
دریں اثناء نیدرلینڈز کے مصروف ترین شہر امسٹرڈم ڈام اسکوائر پر بلوچ کمیونٹی ندر لینڈز کے زیر اہتمام شاہینہ شاہین قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرین نے بلوچستان میں بلوچ خواتین کی قتل کو ریاستی پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ خواتین کا قتل بلوچستان میں خواتین کے سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اس وقت مقتل گاہ کا منظر پیش کررہا ہے جہاں آئے روز پڑھے لکھے طبقے سے وابستہ لوگوں کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی وہ بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لے کر بلوچستان کو انصاف فراہم کریں۔ پاکستان بلوچستان کی آواز کو دبا کر دنیا کو بے خبر رکھ رہا ہے لیکن ہم بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی کو مہذب دنیا کے سامنے آشکار کرینگے۔
یاد رہے کہ کہ بلوچ جرنلسٹ شاہینہ شاہین کو بلوچستان کے مرکزی شہر تربت میں رواں ماہ چار ستمبر کو قتل کیا گیا۔