سیاسی کارکن کا فیصلہ – حاجی حیدر

568

سیاسی کارکن کا فیصلہ

تحریر: حاجی حیدر

دی بلوچستان پوسٹ

جب ڈاکٹر چے گویرا نے انقلابی جہد کار کی حیثیت سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس موقع پر کہے گئے ان کے کچھ سنہرے الفاظ آج بھی ہر سیاسی ورکر کو یاد ہیں کیا خوب کہتے ہیں کہ ” میں بحثیت انقلابی، جہد کار اور گوریلا اپنے اس بنیادی حق کےلیے ہمیشہ و ہر وقت اپنے قیادت اور پارٹی سے لڑوں گا، جس حق کےلیے میں جدوجہد کا حصہ بنا، یعنی یہ میرا بنیادی حق ہے مجھے قیادت ذمہ داری سونپنے، رسک لینے اور اپنا کردار نبھانے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ میں تحریک و تنظیم میں اپنا تاریخی کردار ادا کروں۔”

ساتھیو! اگر آج اس انقلابی جہد کار کے تاریخی جملہ جات پر غور کیا جائے تو شاید ہم جیسے سیاسی کارکن سمجھ لیں کہ ایک تنظیم میں بنیادی حق کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ کچھ عرصہ پہلے ایک بلوچ دانشور اپنے ایک تحریر میں کچھ تلخ حقیقت بیان کیے، آئیے آج ہم ایک بار پھر اس کے سنہرے الفاظ کو ایک ساتھ پڑھتے ہیں ” آج بلوچ تنظیم میں کچھ ایسے غیر انقلابی و روایتی رجحانات جنم لے چکے ہیں کہ تنظیم ہمارے ذاتی و مفاداتی ترجیحات، ضروریات اور خواہشات کو پورا کرے، ہمیں پرسکون حالات و پرسکون ماحول میں آسودہ و آرام دہ زندگی گزارنے دے، بس آرام سے بھیٹنے دے، پھر ہم بہت خوش و مطمٸن ہونگے کہ تنظیمی قیادت ہمیں ہمارا بنیادی حق دے کر خوب سنبھال رہا ہے۔ کیا یہ خود اپنے آپ سے بحثیت ایک سیاسی جہد کار بڑا دھوکہ اور ظلم نہیں ہوگا؟ یا پھر تنظیمی قیادت کی طرف سے کسی سیاسی و انقلابی جہد کار کے کرادر کو مسخ کرنے کا بے رحم عمل نہیں ہوگا؟

مکمل اتفاق کے ساتھ اگر آج اس بلوچ intellectual کے اس تاریخی جملے پر غور کیا جائے تو کیا آج بلوچ طلبا تنظمیوں کے قیادت ورکرز کے سیاسی کردار کو مسخ کر رہے ہیں یا نہیں قبل از وقت کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ وقت بتا دے گا۔

بلکل اسی طرح اٹیلین پولٹیکل تھیوریسٹ گرامشی نے کہا تھا کہ ” اگر محکوم کے کلچر میں مزاحمت نہ ہو وہ کلچر اس کے لیے زہر سے کم نہیں” ساتھیوں آج بلوچ قوم ایک ایسے عہد میں جہاں سترہ سالوں سے جاری جنگ نے آج کے بلوچوں کے طرز زندگی کو بھی سیاسی بنا دیا ہے۔ آج بلوچ کا رہن سہن مزاحمت، کلچر بھی مزاحمت، تہوار بھی مزاحمت ہے۔

جرمنی کے فلسفی اور ماہر تعلیم تھیو ڈور ایڈورنو کے مطابق کچھ بھی غیر سیاسی نہیں ہے۔ بلکہ ہر چیز سیاسی ہے۔اگر کوئی یہ کہتا ہے میں غیر سیاسی ہوں لہٰذا یہ جملہ بذات خود ایک سیاسی جملہ ہے۔

آج یقینا ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں تمام تر انسانی جذبے سیاسی ہوچکے ہیں بلوچ ماٶں اور بہنوں کی چیخ و پکار بھی سیاسی، آج ہر ایک بلوچ کا چیخنا، چلنا، سانس لینا بھی سیاسی ہے۔جس طرح فرانس میں ایک تحریک ابھری جس کا مرکزی نعرہ تھا “personal is politics “

ساتھیوں کتنی جگر سوزی کی بات ہے نا کہ تنظیم میں آپ کےلیے اس لیے جگہ نہیں کہ آپ تنقید کر رہے ہیں، آپ celebrity بنانے، عیش و حرام کلچر نظام کی مخالفت کرتے ہیں۔

ساتھیو! گرامشی نے کہا تھا ” ہمیں ہر حوالے سے بورژوا رہن سہن سے بائیکاٹ کرنا چاہیئے جس سے بالادست قوتوں کو طاقت ملتی ہے” ۔

ساتھیوں فینن ایک جگہ کیا خوب لکھتے ” ایسا ممکن نہیں کہ آپ حاکم طبقے کا حصہ ہوں اور محکوم کا دوست بھی کہلائیں” اس میں کوئی دو رائے نھیں پچھلے کئی سالوں سے صرف اس لیے آپ کو مقدس مان کر اپنا سب کچھ تم پر فدا کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ تمہاری خوبصورتی نہیں بلکہ وہ موقف جس کےلیے نوجوانوں نے اپنے اپنی جان قربان کی ہے۔

جیسا کہ اس تحریر کا ابتداء ہی ڈاکٹر چی کے ان الفاظ سے شروع کیاتھا اسی طرح یہ کارکن کی ذمہ داری ہے کہ اگر قیادت انہیں بیکار بٹھاتی ہے، ان سے کما حقہ کام نہیں لیتی تو وہ اسے آرام کا موقع سمجھ کر خوشی خوشی قبول نہیں کریں، بلکہ قیادت پر دباو ڈالیں انہیں علمی، اور عملی کردار ادا کرنے کا موقع حاصل کریں، اگر نہیں تو چھین ہی لیں۔ اگر قیادت ناکام ہے تو ایک کارکن و سیاسی ورکر و ممبر کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قیادت پر دباو ڈالیں اگر آپ کا ساتھی اس بنیادی نظریے و فیصلے سے دور ہوتا جارہا ہے، تھکا معلوم ہوتا ہے، یا اسی آرام طلب سوچ کا شکار نظر آتا ہے تو آپ کھل کر بغیر نقطہ چینی کے بات کریں، مطالعہ کریں، مباحثے کریں، حالات پر غور کریں۔ کام کرنے کے نئے طریقوں پر غور کریں، بیکاری کو اپنے گرد پھٹکنے نا دیں۔ بقول ایک بلوچ لکھاری بیکاری ایک سیاسی کارکن کو ذہنی، جسمانی اور نظریاتی طور پر دیمک کی طرح چاٹ کر کھو کھلا کردیتا ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ کہ آگر واقعی آپ صرف اس لییے پارٹی یا تںظیم کا حصہ ہیں کہ سوسائٹی میں آپ کو کامریڈ پکارا جاٸے، اس بات سے آپ خوش ہیں تو یقین مانیں آپ نہ صرف بلوچ اسٹوڈنٹس کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ خود پر بھی بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ بس آخر میں ہی کہتا ہوں جس طرح مارکس نے کہا تھا کہ ” ہمیں کوئی چیز سیاسی تنقید سے سے منع نہیں کرتی اور نہ حقیقی جدوجہد میں حصہ لینے سے روکتی ہے”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔