سوشل میڈیا کیخلاف پاکستان کی جنگ
ٹی بی پی اداریہ
دہائیوں طویل سیاسی چالبازیوں اور طاقتور حکومتی عہدوں پر فوج کے منظور نظر افراد کو تعینات کرنے کی وجہ سے آرمی پاکستان میں ایک مضبوط فوجی متوازی و مخلوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ آزاد تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ “جمہوری حکومت” آرمی کا کٹھ پتلی سیاسی چہرہ ہے، جو ملک میں اٹھنے والی تنقیدی آوازوں کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ ترقی پسند اور قوم پرست سیاست کیلئے سیاسی میدان کے بندش کے بعد اب فوج کی تمام بندوقیں سوشل میڈیا پر تنی ہوئی ہیں، جو بچا ہوا واحد میدان ہے جہاں ترقی پسند سیاسی قوتوں اور نقادوں کی جانب سے فوج کو تنقید اور سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں، سوشل میڈیا پر متحرک پاکستانی فوج پر ناقد بلاگروں کو خاموش کرانے کیلئے جبری گمشدگیوں اور تشدد جیسے “آزمودہ حربے” استعمال کیئے گئے۔ سنہ 2017 میں چار معروف بلاگرز اور پاکستانی فوج کے ناقدین سلمان حیدر، وقاص گورایا، عاصم سعید اور احمد رضا نصیر کو اغواء کرکے غائب کیا گیا۔ چاروں بلاگروں کو بعد ازاں ملگ گیر احتجاجوں کے دباؤ میں آکر رہا کردیا گیا لیکن یہ چاروں افراد مزید پاکستان میں نہیں رہ سکے۔ وقاص گورایا نیدرلیڈ پہنچنے کے بعد کھلم کھلا یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ انہیں اغواء اور ان پر تشدد کرنے والا پاکستانی آرمی کا خفیہ ادارہ “آئی ایس آئی” تھا۔
بلاگروں کے یوں کھلم کھلا اغواء اور اسکے بعد اٹھنے والے شور کی وجہ سے پاکستانی خفیہ اداروں کو جو عالمی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، اسکے بعد نقادوں کو خاموش کرانے کیلئے مزید پوشیدہ حربے استعمال کیئے گئے۔
اپریل 2019 میں، فیس بک نے پاکستان فوج کے متعدد اکاونٹس بلاک کردیئے، جو فوج کے ملازم چلارہے تھے۔ فیس بک کی طرف سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے 103 پیجز، گروپس اور اکاونٹس بلاک کردیئے، جو “منظم اور غیر مصدقہ رویے” کا مرتکب ہوتے ہوئے پاکستان سے مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
اصل میں یہ “منظم اور غیر مصدقہ رویہ ” پاکستانی فوج کا دشمنوں کیخلاف وہ “ففتھ جنریشن وارفیئر” ہے، جس کے بارے میں پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل غفور بتاتے تھے۔ اور بظاہر ففتھ جنریشن وارفیئر میں پاکستانی فوج کے دشمن سوشل میڈیا پر موجود سیاسی نقاد ہیں۔
پاکستانی فوج کا سوشل میڈیا پر جنگ کا طریقہ یہ رہا ہے کہ پاکستان کے مظلوم و محکوم طبقات یا اقوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر اٹھائے گئے آواز کو دبایا جائے، اس کیلئے “ماس رپورٹنگ” کا طریقہ استعمال کرکے، ایسی آوازوں کو بلاک کروایا جاتا ہے، یا پھر ان آوازوں کو شور میں گم کردینے اور توجہ سے ہٹانے کیلئے کوئی متوازی جعلی بیانیہ تخلیق کرکے آرمی حمایت یا حکومت حمایتی ہیش ٹیگ چلایا جاتا ہے۔
ریاستی بیانیئے کا مزید تقویت کیساتھ پرچار کرنے کیلئے، ان تمام نیوز ویب سائٹس کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے بلاک کیا گیا ہے، جو فوج کے دباؤ میں آئے بغیر آزادانہ رپورٹنگ کررہے تھے۔ دی بلوچستان پوسٹ میڈیا گروپ کے اردو اور انگلش سروس کے ویب سائٹ پاکستان میں بلاک ہیں۔ اسی طرح وائس آف امریکہ کی اردو سروس بھی بلاک کی گئی ہے۔
پی ٹی اے پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی ہے کہ یہ ادارہ ایک “ریگولیٹری اتھارٹی” کے بجائے محض پاکستانی فوج کا ایک آلہ ہے۔ پی ٹی اے یوٹیوب سے یہ مطالبہ کررہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنا ایک دفتر کھولے، بصورت دیگر یوٹیوب کو بلاک کردیا جائیگا، تاکہ پاکستان میں یوٹیوب کو ضابطے میں لایا جاسکے۔ عالمی برادری پہلے سے پاکستان پر “بیگو” جیسے لائیو اسٹریمنگ ایپ اور حال ہی میں پانچ ڈیٹنگ ایپس پر پابندی لگانے کی وجہ سے مذمت کرچکی ہے۔ آئی ایس پیز ( انڈیپینڈنٹ سروس پروائڈرز) نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان قابلِ اعترض مواد پر پابندی کی آڑ میں سیاسی آوازوں پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جتنی تیزی سے آرمی کی منظم ” ٹرولز اینڈ بوٹس ” سوشل میڈیا پر متحرک ہورہے ہیں، انکی سرگرمیاں اتنی ہی تیزی سے پکڑی جارہی ہیں۔ 31 اگست 2020 کو فیس بک نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 103 ویب پیجز، 78 گروپس، 453 انفرادی اکاونٹس اور 107 انسٹاگرام اکاونٹس پر مشتمل ایک نیٹورک کو “منظم اور غیر مصدقہ رویئے” کی وجہ سے معطل کردیا۔ فیس بک کے مطابق یہ اکاونٹس منظم طریقے سے عوامی بحث کا رخ موڑتے ہیں اور ان اکاونٹس کو بلاک کرنے کیلئے رپورٹ کرتے تھے، جو پاکستانی آرمی اور حکومت کے ناقد تھے۔ مزید برآں یہ اکاونٹس تواتر کے ساتھ پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور پی ٹی آئی حکومت کی تعریفیں کرتے تھے۔