سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 47 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

327

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں

اور پھرہم داخل ہوئے گوادر……
اسے گوادر(Gawadar) کی بجائے گوآدر (Guadar) پڑھنا چاہیے۔ اس کی شکل کیا ہے؟۔ جیسے پانی کے بڑے تالاب کے کنارے یعنی خشکی سے ایک دیوہیکل پیرپانی میں رکھا ہوا ہو۔ اس کی ایڑی کی طرف بھی خشکی، خود سارا پاؤں بھی خشکی ہے البتہ اس کے پنجے کی صورت باثیل پہاڑ کا ابھار ہے۔ پیرکے دائیں بھی پانی اور بائیں بھی سمندر۔ پیر کے دائیں بائیں موجود پانی نیم دائرہ کی شکل کے کنارے بناتا ہوا نیلگوں سمندرکا پانی ہے۔

گوآدر پرشیں گلف کے دھانے پر واقع ہے۔ سٹریٹس آف ہرمز سے ذرا سا باہر۔ پرشیں گلف میں آنے جانے کے بحری جہازوں کے اہم ترین روٹ پر۔ یہی تو وہ اہم ترین سمندری شاہراہ کی اہم ترین جگہ ہے جہاں سے دیو کے دادا ہیکل سے بھی بڑے بحری جہاز خلیج فارس آتے جاتے ہیں۔ اسے اسی خطے میں موجود مغربی بلوچستان کے چاہ بہار بندرگاہ جتنی اہمیت حاصل ہے۔ قلات ریاست میں شامل 72 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود اِن دو بندرگاہوں کو گولڈ سمتھ نامی ایک بدبخت کی تیار کردہ سرحد صدیوں کا فاصلہ دیے بیٹھی ہے۔

عجب چکر چل رہے ہیں۔ ایران، گو لڈ سمتھ کے عطا کردہ چاہ بہار کو گوادر کے مقابل کھڑا کررہا ہے۔ چاہ بہار جو اُس کا اپنا نہیں ہے۔ چاہ بہار بھی گوادر کی طرح مہر گڑھ والوں کا ہے۔ ایران، افغانی بلوچستان میں زرنج نامی علاقے تک ریلوے لائن لے جائے گا۔ جہاں سے تاجکستان کو ریل سے ملایا جائے گا۔ ایشیائی عظیم الجثہ ڈریگن، چین، خود کو تاجکستان سے ریل کے ذریعے ملائے گا۔ ابھی تو ایران اُس بین الاقوامی شاہراہ سے کام لے رہا ہے جو اس نے چاہ بہار سے زرنج تک بنائی ہے۔ اسی شاہراہ کو کئی ممالک ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

اِدھر پا کستان چین کے ساتھ مل کر گوادر کو ”ترقی“ دے رہا ہے۔ Rootکی ساری کہانی چھپا کر محضRoute کے قصے اخبارات اور ٹی وی پر دھڑا دھڑ چل رہے ہیں۔ زون ہی زون۔ پیسہ ہی پیسہ۔ لہٰذا جھگڑے ہیں، فساد ہیں، اخباری بیانات ہیں، ٹی وی ٹاک ہیں، شاک ہیں، صدمے ہیں، زور ہے، شو رہے، زبردستی زیردستی ہے۔ کوئی ناک کو اِدھر سے مسخ چاہتا ہے، کوئی اُدھر سے۔

مگر، گوادر بے چارہ سے کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے کہ بھائی صا حب! بتا تیری رضا کیا ہے۔ اور یہی ہے خرابی کی اصل بنیاد۔ گوادر سے پوچھنا بہت ضروری ہے۔ آج، کل، یا پرسوں۔ پتہ نہیں ہم اپنے نواسوں پوتوں کے لیے مسائل کیوں چھوڑ جانا چاہتے ہیں؟۔ بھلا ایسا کہیں ممکن ہوا ہے کہ اتنے بڑے بین الاقوامی منصوبے، بغیر مقامی رضا مندی سے کامیاب ہوئے ہوں۔ اور مقامی رضا صرف سیاسی نہیں ہوتی۔ آپ کو جغرافیائی موجودات تک کی رضا کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ڈنڈے اور پیسے سے رضا نہیں خریدی جاسکتی، صرف معاہدے مسلط ہو جاسکتے ہیں۔ اور معاہدے طے اور قائم صرف اُس وقت تک رہتے ہیں جب تک اُس کا مصنف طاقت ور رہتا ہے۔ اور طاقت تو بہت خانہ بدوش چیز ہوتی ہے۔ آج یہ آپ کے پاس ہے کل یہ آپ کو ہلاکت میں ڈال کر کہیں اور مہمان بن جاتی ہے۔

گوادر کو ساتھ لیا جاتا تو گوادر بلوچ کی زندگی بدل ڈالنے کا وسیلہ ثابت ہوتا۔ ہم فیوڈل ازم سے ایک ہی جھٹکے میں باہر نکلتے، ہماری غاروں والی زندگی اور مائنڈ سیٹ یک دم بخارات بن جاتا۔ ہمارا تعارف اور ہماری شناخت دنیا سے ایک اور، اور ایک بلند صورت ہوتی۔ علم حلم کے ساتھ مل جاتا، ٹکنالوجی‘ سائنس کی ہم جولی بنتی، اور ہم ایک باوقار مددگار کے بطور دنیا کے کام آتے۔ گوادر ہماری تہذیبی، معاشی اور سیاسی، ہمہ جہت ابھار کا موجب ہوتا۔ گلف سے لے کر ایران و افغانستان اور پاکستان تک بلوچ سماج میں صدیوں بعد، گوادر نے محسوس کی جانے والی ہلچل پیدا کرنا تھی۔ ایک بین الاقوامی سطح کا پروجیکٹ بننا تھا اسے، بہت بڑی سرمایہ کاری ہونی تھی یہاں …… اگر ہم ہوتے۔

شام سات بجے، ہم پلٹتی لپٹتی راہوں کو کار موٹر کی بانہوں میں سمیٹے سیدھا ایک لاکھ آبادی والے گوادر میں اپنے میزبانوں کے پاس پہنچے۔………… موبائل فون پر دوستوں سے راستہ کی ہدایات لیتے لیتے ہم بالآخر ایک بنگلہ کے مین گیٹ پر تھے۔تقدیرنے میرے اچھے دوست بخشی کو قبرستان بدر کردیا تھا، مگر اُس کا بھتیجا بہرام تو موجود ہے۔ اتنا اچھا اور متحرک بلوچ کہ سارے مہمانوں کو اپنے بڑے گھر میں جمع کردیا۔ دعوت کھلائی اور کچھ احباب بالخصوص خواتین مہمانوں کو اپنے گھر ٹھہرایا بھی۔ خدا گھروں گھرانوں کے گیٹ دوستوں کے لیے بند نہ کرے شالا۔

بہت پرانے احباب سے ایک بار پھر ملاقات ہوئی۔ اپنے پسندیدہ فن کاروں، دانش وروں، لکھاریوں، اور ادب دوستوں سے بالمشافہ ملاقاتیں ہوئیں۔ میل ملاپ کے لائق لوگوں سے میل کے بغیر میلہ کیسا؟۔ جلدی جلدی دوستیاں نبھاؤ۔ اس لیے کہ بعد میں وقت نہیں ملے گا…………گوادر اور چینی شہر ژوہائی کو جڑواں شہر قرار دیا گیا۔

شامیں، گوادر کی شامیں۔ ”آنکھوں میں تو دم ہے“ والے غالب کو دو شاموں کے لیے گوادر لاؤ، وہ پوری کلیات بلوچستان کو نہ بخش دے تو جو سزا ضیاالحق کی وہ میری۔ مگر، ایک حقیقت بتاؤں؟۔ برا لگتا ہے وہ شاعر جس نے زندگی بھر محبت کا قطرہ نہ چکھا ہو مگر عشقیہ شاعری کے مجموعے در مجموعے شائع کرتا ہو۔ برا لگتا ہے وہ آدمی جو پیتا نہ ہو اور ساغر و مینا پہ صفحے پہ صفحے کالا کرتا جائے۔ چنانچہ،………… ہم گوادر پہنچے۔

یہ چار روزہ کتابوں کا میلہ تھا۔ مگر اِسی میلے کے اندر سیمینار بھی تھے، پینٹنگز کی نمائشیں بھی تھیں، ڈرامہ، مشاعرہ تھے، ”سینڈ آرٹ“ یعنی ریت سے مجسمے بنانے کی فن کاری تھی۔ موسیقی کی بزم آرائی تھی۔ گویا آرٹ و ادب کی بلند ترین سطح کی سرگرمیاں تھیں۔

میلے کا افتتاح اُسی روز ہمارے پہنچنے سے پہلے جان بلیدی کرچکا تھا۔ جان بلیدی عام سیاسی ورکر سے کم رفتاری مگر مستقل مزاجی سے ترقی کرتا رہا۔ اپنی سیاسی پارٹی کے لیے ایک روزنامہ کی ایڈیٹری کرتا رہا اور بالآخر اب اپنی پارٹی کے وزیراعلیٰ کا سیاسی مشیر اورحکومت کا ترجمان بنا۔ مدہم طبیعت کا بظاہر مؤدب نظر آنے والا یہ سیاسی کارکن اپنی سیاسی (و غیر سیاسی) شرارتوں کے حوالے سے کبھی کبھی اخباروں میں آجاتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر گفتگو کے قابل انسان ہے۔
دو لاکھ روپے امداد کے اعلان کے ساتھ اس نے یہ افتتاح ”فرمایا“۔ اچھا ہوا کہ ہم ”اپنے“ کرنے کے کام کے وقت ہی پہنچے۔ افتتاح و اختتام تو سرکار کے سیشن ہوتے ہیں۔ سپاسنامے، مطالبات، اعلانات، انعامات۔ ہمیں بتایا گیا کہ مقررین کتاب کی اہمیت اور علم کی ترویج کی ضرورت پہ بھی بولے۔ کچھ کچھ وزیراعلیٰ اور اُس کی حکومت کی تعریف بھی ہوئی۔ اصل میں جس تنظیم نے چار روزتک گوادر کو جنگل منگل کرنا تھا اس کا سر برا ہ، واجہ سورابی سمیت تقریباً سارے عہدیدار اِسی پارٹی سے قربت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر سیدھا سیدھا نہ بھی کہیں تو بھی اشاروں کنایوں میں، مونچھوں کے نیچے، چھپ چھپا کر،اس حکومت کی تعریف تو کرنا تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔