زندہ قوم ہیں
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
محبت وہاں ہوتی ہے، جہاں پر امن ہو، جہاں خوشحالی ہو، جہاں پر جوان بیٹا باہر نکلے تو ماں باپ کو یہ خوف نہ ہو کہ واپسی اسکا کسی کفن میں ہو۔ جہاں بیٹی باہر نکلے تو گھر والوں کے دل میں یہ خوف نہ ہو کہ اسکی تشدد زدہ جسم انکو واپس ملے۔ جہاں بچوں کو مسجد، اسکول، کالج، یونیورسٹی، بھیج کر یہ خوف نا ہو کہ ملا یا استاد چوکیدار اسکو اپنی وحشت کا نشاََنہ بنائے گا۔
جہاں گھر کو اگر کھلا چھوڑا جائے تو یہ خوف نہ ہو کہ کوئی گھس کر اس کا صفایا کرے گا۔ جہاں یہ خوف نہ ہو کہ گاڑی میں چلتے ہوئے کسی روڈ پر حادثے کا شکار ہونگا۔ جہاں یہ گھبراہٹ نا ہو کہ بھائی بہن کو گھر میں اکیلا چھوڑا ہے تو وہ بھائی بہن ہی ہیں کوئی وحشی درندہ نہیں, جہاں یہ سوچ نہ ہو کہ کلاس میں بیٹھا ہر جوان لڑکا اپنے ہم جماعت لڑکی کے سینے اور پشت پر نہیں بلکہ وائیٹ بورڈ/ بلیک بورڈ پر نظر جمائے ہوئے ہو,
جہاں لڑکیوں کو یہ خوف نہ ہو کہ جکھ کر اگر سوال کرونگا تو استاد کی نظر صفحے پہ لکھے سوال پہ ہوگا نہ کہ گلے کے اندر جھانک رہا ہوگا۔
جہاں یہ خوف نہ ہو کہ بچے کو کسی ہنر سیکھنے کے لیئے کسی دکان میں ہنر مند کے ساتھ چھوڑا ہے تو وہ ہنر سیکھے گا نا کہ اسکے جسم کو چھوا یا کریدا جائے گا۔,
جہاں بیوی کو یہ خوف نہ ہو کہ میں اگر جلدی سوگئی تو شوہر کا کھانا پینے کا پانی جوتوں کو پیروں سے نکال نا دیا تو وہ بھڑک جائیں گے۔ جہاں شوہر کو یہ خوف نہ ہو کہ میرا موبائل اگر بیوی کے سامنے پیغامات کی وجہ سے جگمگائے گا تو وہ شک کر بیٹھے گی۔
جہاں بچوں پر اس طرح کے خوف کا ماحول نہ ہو کہ وہ اپنا کوئی مسئلہ ماں باپ کے ساتھ بیان نہ کر پائیں۔ جہاں پر چلتی سڑک پر کسی کو اتار کر اسکے سینے پر گولیوں کی برسات نہ ہو۔
جہاں عورت کو انسان سمجھ کر اس سے بات کی جائے نا کہ بات کرتے ہوئے اسکے جسم کی پیمائش کی جائے۔ جہاں تجارت میں صرف مخصوص منافع کو ترجیع دی جائے نا کہ کسی غریب کی کھال ادھیڑی جائے,
جہاں سیاست کے نام پر ممکنات پیدا کی جائیں نا کہ دروازے بند کی جائیں,
جہاں شادی بیاہ دونوں فریقین کی مرضی سے ہو نہ کہ خاندانوں کی مرضی سے ہو جہاں انکی شان وشوکت، پیسے کا معاملہ ہو۔ محبت تو وہاں ہوتی ہے جہاں عشق کی خاطر دنیا بسائی جائے نا کہ کسی کی دنیا برباد کی جائے۔ جہاں پر ناکامیوں کو کامیابی کی سیڑھی قرار دی جائے جہاں پر عورت کو گاڑی چلاتےیا موبائل استعمال کرتے وقت گھورا نا جائے,
جہاں بیٹی کو ہیض ہو تو اسکی پریشانی زیادہ نہ ہو بلکہ ایک فطری عمل سمجھ لیا جائے۔
جہاں تعلیم گاہ انسان نکالے نا کہ درندوں کو جنم دیں، جہاں جسمانی خواہشات کا گلہ گھونٹ کر اندر سے وحشی جانور پیدا نہ ہو جہاں کوئی بکھاری اگر کچھ مانگے تو دل سے کچھ دیں نا کہ اس ڈھونگی کی وجہ سے حقداروں کا حق نا ملے۔ جہاں پیر مرشد کے دم و درود سے بچے عورت دولت کمانے کے شوق نہ ہو۔
جہاں مرد کو یہ کہا جائے کہ تمہیں بھی درد ہوگا تم بھی انسان ہو درد تو پتھر کو نہیں ہوتا انسان تو نازک ہے تم بھی درد سے آشنا ہو ,
جہاں دوست کو دوست ہی سمجھا جائے اتنی امیدیں نا ہوں کہ بعد میں پریشانی یا پچھتاوا ہو۔
جہاں محبت روح کی طرف گامزن ہو نہ کہ بستر کی طرف قدم بڑھیں,
جہاں ملک کے محافظ ملکی قوانین کے دائرے میں رہیں نا کہ خود کو ریاست سے بڑھ کر سمجھیں۔
جہاں عدلیہ انصاف کی خاطر گلہ کٹا دے نا کہ کسی کا گلہ کاٹ دیں، جہاں صحت کے ماہرین ادویات ضرورت کے مطابق مہیا کریں نا کہ اپنی گاڑی نئی کرنے کے لیئے۔
جہاں وزیر خادم ہو عوام کا نا کہ حاکم ہو، جہاں چرس گانجا، افیم، شراب کی جگہ پھولوں کی مالا بیچی جائیں۔
جہاں وزیر روڈ ,نالی ,ٹرانسفرمر , کی جگہ اسکول ,کالج ہسپتال ,کھیل کود کے میدان مہیا کرے۔ جہاں مذہبی ملا , پادری, پنڈت امن محبت کا درس دیں
جہاں خدا, بھگوان, جیزیز, کرائسٹ کی جگہ ایک ہی سمجھیں جائیں۔
جہاں مسلمان ,ہندو ,یہودی ,عیسائی کو انسان سمجھا جائے جہاں قران , گیتا، بائیبل، توارات ،زبور انجیل کو راہ راست کے لیئے پڑھے جائیں
جہاں مذہبی کتابوں کو سائنسی کتابوں سے الگ کرکے پڑھایا جائے
جہاں فتووں کی جگہ میٹھے بول بولے جائیں، جہاں جہاد اپنے نفس کے خلاف لڑی جائے۔
جہاں بھری محفل میں کسی کو کافر گنہگار کی جگہ دوست بنا کر بغل گیر کرنا روایت ہو، جہاں طلاق یافتہ عورت کو بھی تسلی دی جائے نا کہ پٹھکار، بدنصیب کہہ پکارا جائے جہاں رنگ نسل قوم کو پرے رکھ کر سب کو اپنایا جائے۔ جہاں جسمانی تعلقات کی وڈیو کو بیچ کر تجارت نہ کی جائے جہاں معصوم بچوں کو جنسی حراسگی کا نشانہ بنا کر گلہ کاٹ کر کچرے کے ڈبے میں نہ پھینکا جائے۔
جہاں ازاد پرند ،چرند ،درند و انسان کو سلاخوں کے پیچھے رکھ کر ان سے لطف اندوز نا ہوا جائے۔
جہاں بیوی کو بچہ پیدا کرنےکی مشین کے بجائے ایک انسان سمجھا جائے جہاں وراثت میں عورتوں کو انکا حق دیا جائے، جہاں بیٹی کو بیٹے کے برابر سمجھ کر ہر چیز مہیا کیا جائے، جہاں بیٹی کو بوجھ نہیں رحمت سمجھا جائے۔۔۔۔۔
جنت اپنی دنیا خود بنائی جاتی ہے نا کہ کوئی معجزے کا انتظار کیا جاتا ہے کچھ بدنصیب قوموں کا بھی کسی معجزے کا انتظار ہے کہ ایک لیڈر ایک منفرد انسان اسمان سے جگمگاتا ہوا ائے گا اور ان کے لیئے سب کچھ کردے گا ان بد بخت قوموں کو سمجھانا ہوگا کہ معجزے کے دروازے بند ہوئے ہیں۔
میں اس بات سے کافی مطمئن ہوں کہ میرا معاشرہ کافی بہترین ہے، اخلاقی اقدار میں بھی مذہبی جنونیت میں, قومی جنونیت میں, سیاسی جنونیت میں ہم دنیا کو مات دے چکے ہیں سائنسی علوم میں ہم نے مریخ پر جھنڈے گاڑنے کے بعد اب دوسری کہکشاوں کا ارادہ کیا ہوا ہے۔
یہ سب تو اس قوم کے لیئے لکھا ہے جو دیوار میں منہ گھسا کر پیشاب کی پچکاری لگاتے ہیں، اس منحوس بد نصیب قوم کے لیئے ہے، جن کے استادوں کی نظر طلباء کے سینے پر ہوتی ہے جنکے پنڈت ملا اپنے عبادت گاہوں میں جنسی تسکین پانے کی زبردستی کسی بچے یا بچی پر چڑھ جاتے ہیں۔
جہاں چلتی گاڑی میں بیٹھی عورت کا ریپ کرنے والے قوم کی خاطر ہے ایسی بدبخت ریاست کے لیئے جسکا ہر ادارہ سمجھتا ہے کہ ریاست کی ہر اینٹ اس سے ہے۔
ان اقوام کے لیئے جن کا سوچنا یہ ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا سہرا انکو جائے گا جنکو یہ لگتا ہے انکی ڈکار سے بھی بدنصیب امریکہ، فرانس، اٹلی، انڈیا، اسرائیل جیسی نیست نابود معاشی طور پر تباہ و برباد قومیں ڈر جائینگی۔
وہ بیچارے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قدرتی طور پر بنائی گئی عورت کی تصویر بے حیائی پھیلاتی ہے، جنکو یہ لگتا ہے کہ انکا ہر ایک ضرب اپنے مذہب کی پہچان میں شانہ شان ستارے بڑھاتی ہے
باقی میری قوم زندہ ہے پائندہ ہے۔۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔