حفیظ محمد حسنی، کردار، اغواء اور انجام
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ روز دالبندین کے علاقے پل چوٹو سے ایک بلوچ کی لاش ملی تھی، جو محض انسانی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ بعد ازاں اسکی شناخت بلوچستان کے علاقے کلی قاسم دالبندین سے تعلق رکھنے والے حفیظ محمدحسنی کے نام سے ہوئی۔
یہ وہی حفیظ اللہ ولد رحیم محمد تھے، 2018 میں جنکے بارے میں انکے بھائی نعمت اللہ نے ایک پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ انہیں 30 اگست 2016 کو پاکستانی آرمی نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے اور بعد میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں انکے والدہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ حفیظ کو اغواء کرنے والے میجر نوید نے ان سے 68 لاکھ تاوان طلب کیا ہے۔ بعد ازاں اگست 2019 کو پاکستان آرمی نے اپنے مذکورہ میجر کو کورٹ مارشل کرکے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ حفیظ محمد حسنی کون تھا؟ وہ نہ کوئی سرمچار تھا، نہ سیاسی کارکن، نہ کوئی شاعر تھا اور نہ ہی ادیب، نہ کوئی صحافی تھا اور نہ ہی کوئی سماجی شخصیت بلکہ وہ خود پاکستانی فوج کے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈوں کا ایک متحرک کارندہ تھا۔ وہ بلوچ دشمنی، تحریک دشمنی کے آخری حدوں کو چھو چکا تھا، پورے علاقے میں ریاستی آشیرباد سے وہ ایک خوف کی علامت بن چکا تھا۔
حفیظ محمد حسنی عرصہ دراز تک پاکستانی فوج کے مختلف ڈیتھ اسکواڈوں میں متحرک رہا، پانچ سالوں تک بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ سرغنہ شفیق مینگل کی ہمراہ داری کے بعد اسے پاکستانی خفیہ اداروں نے دالبندین میں ذمہ داریاں سونپیں، اسکے بعد وہ فوج کی آشیرباد سے سرِعام ضلع چاغی میں دندناتا پھرتا اور عام لوگوں کا جینا اجیرن کردیا۔ وہ دالبندین کے بھرے بازار میں تقریر کرتے ہوئے آزادی کی جہد میں برسرپیکار سیاسی و مسلح تنظیموں کے خلاف تقریر کرتے ہوئے گالم گلوچ کرتا۔
حفیظ محمد حسنی کی کارستانیوں سے ضلع چاغی کا ہر شہری واقف تھا، وہ اپنے ڈیتھ اسکواڈ کے ہمراہ اگر کسی لمبے بال والے نوجوان کو دیکھتا تو بھرے بازار میں روک کر اس کے بالوں کو کاٹتا، کسی بڑے شلوار والے نوجوان کو دیکھتا تو روک کر اس کی شلوار کاٹتا۔
ڈیتھ اسکواڈ کا اہم کارندہ ملا برکت اکثر اوقات جب بھی ان علاقوں میں آتا تو اسی حفیظ کے ہمراہ چاغی، دالبندین، چہتر میں رہتا تھا، جہاں تک رہی بات ملا برکت جیسے کارندے کی، اسے بھی حفیظ کی طرح پاکستانی خفیہ اداروں نے بلوچ تحریک کے خلاف استعمال کرکے بعد ازاں اپنے رازوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ٹھکانے لگا دیا۔
حفیظ اور اسکے ڈیتھ اسکواڈ کے دوسرے کارندے دالبندین، چاغی اور گردونواح میں چوری اور ڈکیتیوں میں بھی انتہائی سرگرم تھے۔ انکے بہت سے جرائم مشہور ہیں، ان میں سے ایک واقعہ دالبندین کے علاقے چہتر میں پیش آیا جب انہوں نے ایک شخص کو ڈکیتی کے غرض سے قتل کردیا لیکن بعد ازاں اسکے جیب سے محض تیس روپے برآمد ہوئے۔ اسی طرح ایک اور واقعے میں چاغی کے علاقے شہ سالار میں انہوں نے دھوکے سے قادر نامی ایک شخص کو بلایا، جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگیا اور کچھ دنوں بعد اسکی لاش برآمد ہوئی۔
حفیظ محمد حسنی چاغی میں ایف سی و خفیہ اداروں کے لئے منشیات لوٹنے اور فروخت کرنے والا ایک اہم کارندہ بھی تھا۔ اور اس کی گرفتاری، لاپتہ اور ہلاکت کی وجہ بھی منشیات کی لین دین کی وجہ سے ہوئی۔ حفیظ محمد حسنی اسی میجر نوید کیلئے منشیات کی گاڑیوں کو لوٹ کر فروخت کرتا اور پھر پیسوں کا بڑا حصہ میجر کو پہنچا دیتا۔ ایک مرتبہ کے کاروائی میں میجر کو شک ہوا کہ حفیظ نے اسکا حصہ نہیں پہنچایا ہے تو اسے اٹھوا کر 68 لاکھ کا مطالبہ کردیا، اور جب بات بڑھی اور فوج کو شک ہوا کہ ڈیتھ اسکواڈوں کی صورت میں وہ جو گہناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں، اسکا پردہ پاش ہوجائے گا تو انہوں نے قتل کرکے حفیظ کو ویرانے میں دفن کردیا۔
گوکہ حفیظ محمد حسنی نے دشمن سے ہمرکابی کی تھی، اور خود کتنے بلوچوں کے قتل و لاپتہ کرنے میں ملوث تھا، لیکن جب اسے اغواء کیا گیا اور اسکے اہلخانہ پر اسی فوج کی طرف سے دباؤ، بلیک میلنگ اور بیٹے کے گمشدگی کے پہاڑ ڈہائے گئے تو انکی مدد کیلئے وہ فوج نہیں آئی، وہ خفیہ ادارے نہیں آئے جن کیلئے حفیظ اپنے قوم سے غداری کررہا تھا، بلکہ انکی داد رسی کیلئے انکے اپنے بلوچ آئے، انکے اہلخانہ کا درد دوسرے لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے بانٹا، انکی آواز یہی بلوچ سیاسی کارکنان بنے۔ گو کہ وہ بلوچ دشمنی کا مرتکب ہوا تھا لیکن ایک بلوچ کے دکھ اور تکلیف کو بلوچ نے ہی سمجھا، اسکے ماں کے آنسووں کے درد اور بیٹی مقدس کی معصومیت میں چھپے سوالوں کو بلوچوں نے ہی سمجھا، اور بلوچ ہی انکا سہارہ بننے کیلئے آگے بڑھے۔
ایک بلوچ ہونے کے ناطے اور انسانیت کے بنیادوں پر سوشل میڈیا اخباروں میں ہر بلوچ نے حفیظ کیلئے آواز اٹھایا کیونکہ حفیظ کی بیٹی مقدس، اس کی بیوی، ماں اور بچوں کا کوئی قصور نہ تھا اور نہ ہی ہے لیکن مسلسل 4 سال کے احتجاج کے باوجود حفیظ زندہ گھر واپس نہیں آیا۔ کیونکہ حفیظ کے ساتھ پاکستانی فوج کے انسانی جرائم کے ڈھیر سارے راز تھے۔
72 سالوں سے پاکستانی فوج کی یہ بنیادی خصلت رہی ہے کہ وہ مختلف کرداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کرکے بعد میں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے، یہ فوج بڑے بڑے کرداروں کو استعمال کرکے انکا بآسانی صفایا کرتا رہا ہے، حفیظ بیچارہ کیا چیز تھا۔
یہ صرف حفیظ کا ہی پہلا واقعہ نہیں ہے، موجودہ تحریک کے خلاف کام کرنے والے کئی کارندوں کے ساتھ ساتھ ڈیتھ اسکواڈ کے اہم سرغنہ ملا برکت محمدحسنی سے لیکر کئی سرنڈر شدہ کارندوں کو فوج ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے بعد میں قتل کرچکا ہے یا بلا واسطہ قبائلی دشمنیوں میں پھنسا کر مرواچکا ہے۔
چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ ایک سرنڈر شدہ شخص نے کسی سے کہا تھا “ایمانداری سے پوچھو، اگر میں آج فوج کے سامنے بلیک میل نہیں ہوتا، تو واپس جاکر تحریک میں شامل ہوجاتا، پھر فوج اور ہم جیسے سرنڈر شدہ لوگوں، مخبروں، ڈیتھ اسکواڈ کارندوں کی اندورونی کہانی پوری قوم کے سامنے بیان کرتا تو خدا کی قسم آئندہ ایک بندہ بھی پاکستانی فوج کے سامنے سرنڈر کرنے یا انکیلئے مخبری کرنے کے بارے میں سوچتا تک نہیں۔”
پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو اس حد تک علم تو ہے کہ کوئی بلوچ، جب اپنے بلوچ سرزمین، بلوچ قوم، بلوچ ماں بہنوں، بچوں اور بلوچ تحریک و بلوچ شہیدوں کا وفادار و خیر خواہ نہیں ہوسکا تو پھر یہ کیسے ہمارے وفادار ہوگا۔ بس صرف اپنا کام نکالو اور استعمال کرکے پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دو۔
آج حفیظ کا سبق آموز و عبرت ناک تازہ واقعہ ہمارے سامنے عیاں ہے، نقصان کس کا ہوا؟ تکلیف کس کو ہوئی؟ آگ کس کے گھر میں لگی؟ تاریخ میں عبرت کا نشان کون بنا؟ مقدس جب بڑی ہوگی کیا محسوس کریگی؟ فخر یا شرمندگی؟ سب سے بڑا اور اہم سوال یہ نہیں ہے کہ ہم آج کیا ہیں، کس حالت سے گذر رہے ہیں۔ سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ رہے ہیں؟ ہمارا آج، ان کا مستقبل ہوگا۔ جب ہم قومی غلامی میں مدہوش و غلطاں ہونگے یا دشمن کے استعمال شدہ پرزہ بن کر استعمال ہوتے رہینگے تو آنے والی نسل بھی ہمارے گناہوں و اعمال کی سزائیں بھگتتا ہی رہیگا، پھر وہ فخر نہیں شرمندگی محسوس کرتے رہینگے، حفیظ کو مورخ کیا لکھے گا، بلوچ شہید یا پاکستانی شہید؟ غدار یا پھر ضائع؟
اکثر کچھ غیر فعال اور مایوس کردار سرنڈر شدہ لوگوں اور ڈیتھ اسکواڈ کارندوں کے لیے ایسے لغو قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں کہ جی مجبور ہوگئے، سرنڈر نہیں کرتے پھر کیا کرتے؟ کیا آج حفیظ کے تمام مجبوریاں پوری ہوگئیں؟ اکثر ایسے لوگ سرنڈر شدہ اور راہ فرار اختیار کرنے والے لوگوں کو کبھی بھی غلط نہیں کہتے ہیں بلکہ بلاواسط اور بالواسطہ ان کے حق میں لغو قسم کے دلائل بھی گھڑتے ہیں، دراصل انکے اپنے دماغ کے ایک کونے میں راہ فراریت اور سرنڈر کا ایک آپشن موجود ہوتا ہے تاکہ راہ ہمواری کے لیے اس راہ کے حق میں پہلے سے تاویلیں پیش کریں۔
پتہ نہیں یہ بات کیسے بھول دیا جاتا ہے کہ اگر یہ غیر فطری ریاست ہماری ہوتی، اس ریاست میں کوئی خیر ہوتی، یا کچھ بھلے کا توقع ہوتا تو کبھی مزاحمت نہیں ہوتی، مزاحمت خود غلط کو صحیح کرنے اور غیرفطری کو نیست کرکے فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کا وسیلہ واحد ہے۔ اب یہ کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ مزاحمت کے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے، ازخود ایسی ڈرامائی روبہ عمل ہوجائینگی کہ اسکی ضرورت ختم ہوجائیگی اور کسی کے واپسی کے جواز تیار ہونگے۔ جب قبضہ ہو، ظلم، بربریت اور جبر کا راج ہو تو مزاحمت سے واپسی کا راستہ صرف فتح ہے، اسکے علاوہ باقی تمام دلائل اور تاویلیں محض بزدلی، تھکاوٹ اور بے دلی کے شَکر میں اَٹے تشریحات ہیں۔
حفیظ محمد حسنی ہر بلوچ کیلئے ایک نشان عبرت ہے، حفیظ کا ڈھانچہ اپنے قوم سے غداری اور دشمن کا ساتھ دینے والوں کے انجام کا ایک استعارہ ہے کہ چاہے وہ کسی بھی حد تک دشمن کے وفادار رہیں، انکی نظر میں بلوچ کی حیثیت کیا ہے، اور حفیظ کی ماں اور بیٹی کے آنکھوں سے دوسرے غمزدہ بلوچ ماں بہنیں جس طرح آنسو پونچھ کر انہیں دلاسہ دے کر انکا سہارہ بن رہے تھے، یہ ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ کیوں یہ قوم بلوچ اس لائق ہے کہ اسکی آزادی و خوشحالی کیلئے لڑا جائے اور قربان ہوا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔