جنگ اور اسکے نفسیاتی اثرات – برزکوہی

1464

جنگ اور اسکے نفسیاتی اثرات

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

انسان پر جنگ کے نفسیاتی اثرات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی جنگوں کی اپنی تاریخ پرانی ہے۔ اگر جنگوں کی تاریخ پر ایک نظر دوڑائی جائے تو ایک بات انتہائی واضح نظر آجاتی ہے کہ جنگوں میں براہ راست نشانہ بن کر مرنے والوں سے کئی گنا زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو جنگوں کا نفسیاتی شکار بنتے ہیں۔ جنگ اور مرگ انسان پر انتہائی گہرے نفسیاتی اثرات مرتب کرتے ہیں، اس حقیقت سے قبل از تاریخ کے جنرل تک واقف تھے، اسلیئے انہیں ہر بڑے معرکے کے بعد صف اول میں لڑنے والے بہت سے سپاہیوں کو ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کی وجہ سے بدلنا پڑتا تھا، کیونکہ نفسیاتی اثرات وباء کی طرح ہوتے ہیں، جو ایک سے دوسرے میں تیزی کے ساتھ منتقل ہوتے ہیں، اگر صف اول کے محض کچھ سپاہی ذہنی پستی کا شکار ہوجاتے تو اسکا شکار پورا لشکر ہوجاتا۔

جنگ کے ان نفسیاتی اثرات کیلئے مختلف اوقات میں مختلف اصطلاحات استعمال ہوتے رہے ہیں، جیسے کہ ” شیل شاک “، “سولجرز ہارٹ “، ” وار نیوروسس” وغیرہ لیکن ویت نام جنگ کے بعد امریکی فوجیوں میں بڑھتے نفسیاتی اثرات پر تحقیق کے بعد امریکی سائیکٹری ایسوسی ایشن نے 1980 میں ایک نئے اصطلاح کا اضافہ کیا، “پی ٹی ایس ڈی” ( پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) اسکے بعد پی ٹی ایس ڈی علم نفسیات میں زبان زد عام ہوگئی۔

گوکہ یہ نفسیاتی اصطلاح محض چار دہائیوں پرانی ہے لیکن پی ٹی ایس ڈی کی تاریخ ہمیں انسانی کے پہلے سب سے بڑے معرکے “گل گامیش” کے رزمیہ قصے (2100 قبل از مسیح) سے ہی ملتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ہی انسانی نفسیات کا حصہ رہا ہے۔ گل گامیش جب اپنے دوست “انکیدو” کو جنگ میں کھودیتا ہے تو وہ غم سے نڈھال ہوجاتا ہے، دوست کی یاد میں ماتم کے بعد اس پر اتنے گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ وہ زندگی کا مقصد بھول جاتا ہے، یہاں وہاں بھٹکتا رہتا ہے اور خود بھی مرنا چاہتا ہے۔ یہ اسکی پوری شخصیت بدل دیتا ہے۔

فرانس و انگلستان کی سو سالہ جنگ کے ایک معروف ہیرو ” پیر ڈی بیم ” کے بارے میں تاریخ دان “ژاں فغاسا” لکھتے ہیں کہ “پیر” جنگ کے بعد پوری زندگی اپنے بیوی بچوں کے قریب سو نہیں سکا، جنگ کے دوران عادت کی وجہ سے وہ بے اختیار نیند سے اٹھ کھڑا ہوجاتا اور اپنا تلوار اٹھا کر باہر دوڑ پڑتا۔ اسی طرح شکشپیئر کے شہرہ آفاق ڈرامے “رومیو اور جولیٹ” میں بار بار جنگ سے واپس آئے ایسے سپاہیوں کا تذکرہ ملتا ہے، جنہیں ڈراونے سپنے سونے نہیں دیتے۔

پی ٹی ایس ڈی درحقیقت ایک ذہنی کیفیت ہے، اسکا شکار کوئی اس وقت ہوسکتا ہے، جب کسی کو بھی اچانک بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کسی بھی ایسے صدمے سے دوچار ہونا پڑ ے جو ذہن پر حاوی ہونے کے ساتھ انتہائی خوفناک ، روح فرسا، اور ہمارے بس سے باہر ہو۔

مثال کے طور پر جنگی حالات سے گذرنا، سڑک پر کسی دل دہلا دینے والے حادثے کا شکار ہونا یا ایسے ہی کسی حادثے کا منظر دیکھنا، کسی قریبی عزیز کی اذیت ناک موت کا سانحہ، کسی کے ہاتھوں یرغمال ہو جانا، جنگی قیدی بن جانا جیسے کسی بھی واقعے کے بعد بہت سے لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں، بہت سے لوگ کسی کی مدد کے بغیر ہی اپنی ذہنی کیفیت پر قابو پالیتے ہیں، اور چند دنوں یا ہفتوں کے اندر ہی صحتیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم تین میں سے ایک فرد میں آنے والےکئی مہینوں بلکہ برسوں تک یہ علامات جاری رہتی ہیں۔

پی ٹی ایس ڈی کے دوران آپ رنج والم، ذہنی دباؤ، اضطراب، احساس جرم یا غصے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس مخصوص اذیت ناک حادثے کا منظر بار بار ذہن میں آتا ہے۔ آپ ذہنی طور پر اس صورتحال سے بار بار گزرتے ہیں۔ پھر آپ اس واقعے کے بارے میں سوچنے سے گریز اور ذہنی پریشانی سے بچنے کے لئے مصروفیات کا سہارا لیتے ہیں اور کسی بھی ایسی چیز یا لوگوں سے گریز کرنا شروع کرتے ہیں، جس سے اس واقعے کی یاد آپ کے ذہن میں تازہ ہو جائے۔ پھر بہت زیادہ شراب نوشی یا نشہ آور چیزوں (بشمول درد کم کرنے والی گو لیوں) کا استعمال بھی عمومی علامات ہیں۔

ہماری قوم یوں تو غلامی کے ابتداء سے ہی جنگی حالات سے گذررہی ہے، لیکن گذشتہ دو دہائیوں پر محیط دور بالعموم پوری قوم اور بالخصوص بلوچ جہدکاروں پر ایک باضابطہ کٹھن جنگی دور رہا ہے، ہزاروں پیاروں اور دوستوں کا لاپتہ ہونا، فوجی آپریشنیں، ساتھیوں کی شہادت، جسمانی و ذہنی تشدد وغیرہ معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایسے عالم میں نفسیاتی مسائل خاص طور پر پی ٹی ایس ڈی کا جنم ایک لازم امر ہے، لیکن ہمارے معاشرے خاص طور پر جہدکاروں میں نفسیاتی مسائل پر بات کرنا اور انہیں تسلیم کرنا جیسے ایک شجرِ ممنوعہ ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مسائل خاموشی کے ساتھ شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔

گوکہ ان مسائل پر کھل کر بات نہیں کی جاتی، لیکن میں نے اپنے ذاتی تجربات میں ایسے بہت سے سیاسی کارکنان اور جہد کار دیکھے ہیں، جن کا طرز عمل اور حرکات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ نفسیاتی الجھنوں اور پی ٹی ایس ڈی سے نبرد آزما ہیں۔ میں نے اس حیران کن امر کا بھی مشاھدہ کیا ہے کہ کچھ ایسے کارکنان اور جہدکار ہوتے ہیں جو مسلسل پندرہ بیس سال جنگی حالات، مرگ اور کھونے کے تجربات سے گذرنے کے باوجود کسی طرح کے بھی نفسیاتی الجھن کے آثار نہیں دِکھاتے اور ذہنی طور پر مکمل طور پر ثابت نظر آتے ہیں اور کچھ ساتھی ایک دو سالوں کے اندر ہی انتہائی پیچیدہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عمومی طور پر ہمارے معاشرے یا عام زبان میں ایسے نتائج کیلئے محض یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں ذہنی طور پر مضبوط انسان یا بہادر ہے اور فلاں ذہنی طور پر کمزور ہے لیکن سائیکٹریمیں علمی تعریف پر یہ تشریح و تاویل قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ تو اسکی کیا وجہ ہے؟

پی ٹی ایس ڈی پر مزید تحقیق کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان زیادہ تر اس کیفیت کا اس وقت شکار ہوجاتا ہے، جب وہ ذہنی طور پر کسی سخت حالت، صدمے، حادثے وغیرہ کیلئے تیار نہیں ہو۔ جب حالات و واقعات اسکے توقعات کے برعکس انتہائی اچانک منفی سمت میں چلے جائیں۔ اگر کوئی انسان پہلے سے ہی ہر قسم کے حالات کیلئے تیار ہو تو وہ صدمات سے دوچار نہیں ہوتا۔

اس حوالے سے ایک دلچسپ تحقیق موجود ہے کہ ویت نام جنگ کے دوران امریکی فوجیوں میں پی ٹی ایس ڈی کی شرح ویت کانگ گوریلوں میں پی ٹی ایس ڈی کی شرح سے ہوشربا طور پر کئی گنا زیادہ تھی۔ اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ امریکی فوجی ذہنی طور پر خود کو طاقتور سمجھ کر ویتنام کو آسانی سے فتح کرنے کا توقع رکھتے تھے، لیکن ویت کانگ گوریلے ذہنی و نظریاتی طور پر تیار تھے کہ انکا مقابلہ ایک بہت طاقتور دشمن سے ہے اور انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اسلیئے جنگ میں امریکی نقصانات و دباؤ انکے فوجیوں کیلئے توقعات کے برعکس اور اچانک تھے لیکن ویت کانگ جن حالات سے گذرتے، کچھ بھی انکیلئے اچانک اور صدمہ نہیں ہوتا۔

یہاں سے ہم اب اگر بلوچ تحریک کی بات کریں تو پھر یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ کیوں کچھ دوست کم عرصے میں پی ٹی ایس ڈی کے انتہائی نوعیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور کچھ پر کیوں سالوں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہمیشہ جب آپ کمزور کی حیثیت سے کوئی جنگ شروع کرتے ہیں، تو اس میں آپکا سب سے بڑا ہتھیار آپکی ذہنی، فکری، نظریاتی اور اعصابی مضبوطی ہوتا ہے۔ جسکے بدولت آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ خود سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کو ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں گھسیٹ کر اعصابی طور پر شَل کردو گے۔ دشمن کے تنخواہ دار فوج کو نفسیاتی طور پر توڑ کر پھر آپ جنگ جیت جاؤ گے، لیکن جب آپ خود ایک طویل اور پرکھٹن جنگ کیلئے نفسیاتی طور پر تیار نہیں ہوتے تو پھر کمزور کی حیثیت سے لڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، آپ دشمن کو تھکانے اور توڑنے سے پہلے خود ہی تھک اور ٹوٹ جاتے ہو۔ جن جنگوں اور انقلابی تحریکوں میں ذہنی و فکری اور سیاسی تربیت و پختگی کا فقدان ہو، وہاں ذہنی دباو، ذہنی تناو اور ذہنی انتشار کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور آپکا شیرازہ بکھرجاتا ہے۔

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں جنگ کو جنگ، انقلاب کو انقلاب اور تحریک کو تحریک سمجھنا ہوگا اور ان تقاضات سے ہم آہنگ ہوکر لڑنا ہوگا۔ اور انکا سب سے بڑا تقاضہ ہی ذہنی و نظریاتی طور پر مسلح ہونا ہوتا ہے۔ ہر طرح کے حالات کیلئے تیار رہنا ہوتا ہے۔

لیکن اسکے باوجود، جنگی حالات کیلئے کوئی بھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوسکتا، کبھی نا کبھی کوئی نا کوئی ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ذہن پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ہم پی ٹی ایس ڈی کے شکار ہوسکتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق ایک صحت مند ذہن کے مالک انسان کو دوبارہ مکمل معمول پر آنے کیلئے محض چار سے چھ ہفتے لگتے ہیں، اسے ادویات کی ضرورت نہیں محض قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے، اور بہت سے کیسز میں انسان کو خود تک پتہ نہیں چلتا کہ میں پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوچکا ہوں۔

اگر پی ٹی ایس ڈی کی نوعیت شدید ہو بھی تو اس سے انسان ازخود صحت یاب ہوسکتا ہے، ماہرین کے مطابق اپنے معمول کے کام سے فرار کے بجائے، ایسا شخص اپنے روزمرہ کے معمولات دوبارہ سے کرنے کی کوشش کرے۔ کسی قریبی دوست سے اس واقعے کے بارے میں باتیں کرے اور ورزشیں کرے۔ کھانا باقاعدگی سے کھائیں۔ پی ٹی ایس ڈی کی علامات آپ کی شخصیت میں کسی کمزوری کی علامت نہیں ہیں، یہ فطری ہیں۔ دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا کم مت کریں۔ بہت زیادہ سگریٹ یا شراب نوشی نہ کریں۔ اپنی نیند یا خوراک میں زیادہ کمی نہ ہونے دیں۔ ایک جہد کار یا سیاسی کارکن کیلئے بہترین علاج خود کو فکری اور نظریاتی طور پر مزید مستحکم کرنا ہوتا ہے، اپنے حالات کو اور زمینی تقاضات کو باریک بینی سے جانچ کر تقاضات کو سمجھنا اور خود کو انکے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔