تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی وہ جھوٹا تھا – سبی بسمل

757

تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی وہ جھوٹا تھا

تحریر: سبی بسمل

دی بلوچستان پوسٹ

پانچ ستمبر کو ہمیں بھی ایک ایسی جھوٹ جیسی سچی خبر پہنچی تھی۔۔۔ ایک ایسے سماج میں جہاں عورت کے وجود کی حیثیت صرف جذباتی تقریروں اور ادب یا لٹیریچر کی کتابوں تک ہو اور زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہی ہوں، تب آپ بحیثیت ایک عورت کے کیا کروگی؟ اسے اپنی قسمت مان کر چُپ سادہ لوگی یا ایسی قسمت کی قیمت ادا کرنے سے انکار کروگی جو تم نے لکھی ہی نہیں تھی؟ یا پھر زندہ رہنے کے لیئے جدوجہد کروگی؟

میری اس تحریر سے شاید کچھ لوگوں کی دل آزاری ہو یا میری باتیں تلخ لگیں یا جذباتیت کا عنصر زیادہ ہو اسکے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے اپنے عزیز، ایک اچھی سہیلی، اچھی دوست، ایک درد باٹنے والے ساتھی کو کھویا ہے۔

ایک ایسی ساتھی، جو ہمیں ہمارے ہونے کا ہر قدم پر احساس دلاتی تھی، جو جنگل میں اس ہرنی کی مانند تھی جہاں قدم قدم پر شکاری کتوں اور بہروپ جنگلی جانورں کے منڈلاتے سائے بھی اسے جینے کی آس سے زندگی کرنے سے نہیں روک سکتی تھیں، جو اس جنگل سے اتنا پیار کرتی تھی کہ اس نے جنگل نہ چھوڑنے کی فیصلہ کرلیا تھا۔

میری آنکھیں شاہینہ کے ساتھ اسکی یادوں کے ساتھ قید ہوکر رہ گئی ہیں۔

میرے ساتھ شاہینہ کی یادیں، ایک طفل کی طرح بازو پھیلائے روتے ہوئے بلبلاتے ہوئے پیچھے دوڑ رہی ہیں، ہماری بچپن کی یادیں آنکھوں میں تمام مناظر پھر سے زندہ ہونے کی آرزو لیے بار بار ذہن میں گھر کررہے ہیں، وہ گلیوں میں دوڑتے نخلستان کی طرف کڑی دھوپ میں نکلتے، وہ گڑیا اور گڈے کی شادی میں سہیلیوں کے ساتھ، وہ گھر کے پچھواڑے میں کسی سائے کی تلاش، سب منظر نظروں سے ایک دن اوجھل ہوجائیں گے۔

جہاں ہر گذرنے والی سورج کی شعاوں میں نظریں جمانا، مٹی سے گھروندے بنانا، ریت سے کھیلنا اور پھر شام کو تمام شرارتیں گھر کے کسی کونے میں رکھ کر گہری نیند کی آغوش میں سو جانا۔۔۔

صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے اپنے بچپن کی تمام جمع پونجی بستے میں سمیٹ لینا، جیسے شاہینہ بچپن میں بڑی ہوگئی تھی، اس نے اپنے بل بوتے پر ایک ماہوار بلوچی میگزین دزگہار نکالا، جہاں بلوچ لڑکیوں اور خواتین کے لکھنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔ خواتین کے حق میں بولتی اور بے باک ہوکر بولتی تھی۔

مجھے نہیں معلوم تھی کہ اسکے قہقہوں کی آوازیں سننے کے لیے میرے کان ایک دن ترس جائیں گی۔ رنگوں میں زندگی ڈھونڈنے والی، رنگوں سے جنون کی حد تک پیار کرنے والی، شاہینہ بلوچ ایک ایسے رسم پر واری گئی، جسکی بنیاد نہ اس نے رکھی تھی نہ اسکے آبا و اجداد نے۔

وہ جینا چاہتی تھی زندہ رہنا چاہتی تھی، وہ ہواؤں کے دھن پر پازیب کی جھنکار بن کر ساز و آواز کی گہرائیوں تک اترنا چاہتی تھی، جیسے ساون میں مورنی اپنے پنک کھولے محوِ رقص ہو، اسکا گھر اسکا گھونسلہ تھا، وہ گھونسلہ جسکی پہرہ داری اس نے ایک سانپ کے ذمے رکھی تھی، بلکہ آستین کا سانپ۔۔۔
اُف خدایا نے دنیا بنائی،
انسان بنایا مگر پھر بھی ہمیں جینے کا سلیقہ نہ آیا۔

دن دھاڑے ایک چلتے پھرتے انسان کو ہمیشہ کے لیے ہم سے دور کیا گیا۔ تین گولیاں اسکے سینے میں پیوست کرکے اسے خون سے نہلایا گیا۔ یہ سچ ہے کہ شاہینہ جب کاغذ پر رنگ بھرتی تھی تو اسے تمام رنگوں کی طرح سرخ رنگ سے محبت تھی، مگر اب کی بار یہ سرخ رنگ اسکی شریانوں سے نکلنے والے اسکی اپنی تھی۔

یہ سوچ کر نیند نہیں آتی کہ اس نے شاید ہمیں آخری بار آواز دی ہوگی، ہمیں پکارا ہوگا، اپنی بہن زہرا کو مدد کے لیے پکارتی رہی ہوگی، مجھے آوازیں دیتی رہی ہوگی یا پھر ماری کو آخری سِسکی لیتے ہوئے یاد کیا ہوگا، اپنی اماں کو مدد کے لیے پکارا ہوگا۔ اسکے گھر کا وہ آنگن اب جیسے قبرستان میں بدل دیا گیا ہو اور ہم سب چلتے پھرتے لاش۔

عورت کو ہر قدم پر جینے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، مگر وہ قیمت ہر بار ہم جیسے کمزور لوگ کیوں ادا کریں؟ ہمارے خواب، ہماری زندگی، ہمارے حصے میں درد کی تعبیر کیونکر لاتی ہیں؟

ہماری سانسوں پر دوسروں کے پہرے کیوں ہیں؟

ایسے بہت سارے سوال میری دماغ کے کسی کونے میں دستکیں دے رہی ہیں۔ اسکی چیخیں مجھے سات سمندر پار بھی سنائی دے رہی ہیں، وہ مجھ سے اپنے لیے لڑنے کا کہہ رہی ہے، ہر اس عورت کے لیے لڑنے جا رہی ہے، جسکے وجود سے یہ سماج انکاری ہے، یہ بیمار دیمک زدہ سماج۔

وہ سماج جسکی تشکیل میں ہم جیسے ساکت ساکن شے ہوں، ہم سے پوچھا بھی نہ جائے اور ہمارے حصے میں موت لکھ دیا جائے، غیرت کی سیاہی سے موٹے موٹے سطروں میں موت۔

شاہینہ کے خواب اسکے ساتھ چلے گئے، وہ خواب جو اس نے کھلی آنکھوں سے دیکھی تھیں، وہ خواب جنکی تعبیر اتنی ڈراونی ہوگی، یہ شاہینہ سمیت ہم میں سے کسی نے نہیں سوچا ہوگا۔

ہم ایک ایسے سماج میں زندہ ہیں جہاں ہر گھر میں ایک شاہینہ ہے جسکے خواب دیکھنے کے راستے میں پہرے دار کھڑے ہیں۔

ہمارے لیے دو راستے رہ گئے ہیں، ایک اپنی موت کا تماشا دیکھو یا پھر کسی اور کے لکھے پر اپنی بے موت مرنے سے انکار کرو۔۔۔

پانچ ستمبر کو شاہینہ کو تین گولیاں مار کر مارنے والا مجرم ابھی بھی آزادی سے گھوم رہا ہے اور مقتولہ پر سوالات کیئے جارہے ہیں۔

کچھ لوگ اسے گھریلو مسئلہ بتا کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں ہیں، گھریلو مسئلہ تین گولیوں کے ساتھ اسکی گونج اور شاہینہ کی آخری چیخوں کے ساتھ گھریلو نہیں رہا۔ جب تک قاتلوں کی گرفتاری عمل میں نہیں آتی ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

مجھے یہ معلوم ہے وہ طاقتور ہیں، مجھے یہ معلوم ہے کہ یہاں قانون قاتل کی پشت پناہی اور مقتول کے گلے میں پھندا ڈالتی ہے، مگر پھر بھی ہم چپ نہیں رہیں گے، کیچ سے لے کر بلوچستان کی ہر در و دیوار قاتل کو قاتل ہی کہے گا۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔