تربت: منشیات کے روک تھام کیلئے عوامی احتجاج

608

بلوچستان کے علاقے تربت میں انسداد منشیات کے حوالے سے عوامی جلسہ منعقد کیا گیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے مختلف علاقوں سے آکر شرکت کی۔

تربت، بلیدہ زامران اور دیگر علاقوں میں گذشتہ دنوں منشیات کے خلاف علاقہ مکینوں نے مہم کا آغاز کیا۔ اس دوران حکام سے رابطہ کرکے منشیات کے اڈوں کو بند کرنے سمیت منشیات کے عادی افراد کا اپنی مدد آپ کے تحت مقامی طور پر بنائے گئے سینٹرز میں علاج بھی کیا جارہا ہے۔

تربت احتجاجی جلسے میں شرکت کیلئے بلیدہ زامران، گوادر، دیگر علاقوں سے لوگوں نے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے قافلوں کی صورت میں تربت پہنچے اور بعدازاں پیدل مارچ کی صورت میں جلسہ گاہ پہنچے۔

احتجاجی جلسہ ڈگری کالج تربت میں منعقد ہوئی جہاں سماجی اور سیاسی افراد نے خطاب کیا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ منشیات سب سے بڑی دہشت گردی ہے جو ہمارے نسلوں کو تباہ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلیدہ کے ایک چھوٹے سے علاقے الندور میں منشیات کے خلاف شروع ہونے والے مہم آج ایک منظم تحریک کا شکل اختیار کرچکا ہوں۔

مظاہرین نے انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان سینکڑوں چیک پوسٹوں سے ایک ناخن کٹر گزار نہیں سکتے جبکہ منشیات فروش ہزاروں ٹن منشیات ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں منتقل کرتے ہیں۔ منشیات کی اجازت کو ہم بلوچ نسل کشی سے تعبیر کرتے ہیں۔

مظاہرین نے کہا کہ انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران اس وقت تین سو منشیات کے عادی افراد کا اعلاج کررہا ہے۔ ہم حکومت بلوچستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مزید منشیات کے عادی افراد کا علاج کرے۔

واضح رہے بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی منشیات کیخلاف طلباء اور دیگر افراد کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ دنوں حب چوکی میں اسی نوعیت کے مہم کا آغاز کیا گیا۔

یاد رہے اس سے قبل نوشکی میں منشیات کے خلاف موثر آواز بننے والے نوجوان سمیع مینگل کو مبینہ طور پر منشیات فروشوں نے قتل کردیا تھا، سمیع مینگل کے قتل کے بعد نوشکی سمیت مختلف علاقوں میں منشیات فروشوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں آغاز ہوا تھا۔ جسکا سلسلہ ابتک بلوچستان بھر میں جاری ہے۔