بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کرہ بیان میں بولان میڈیکل کالج ایکٹ میں ترمیم کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ پر بیٹھے طلباء اور ملازمین کی صحت اور حکومت کی عدم توجہی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے آئینی حق کے لئے جدوجہد کرنے والے طلباء کے صحت کو خطرات لاحق ہے۔ بولان میڈیکل کالج کے طلباء جہاں گذشتہ سال سے اپنے جمہوری حق کے لئے احتجاج کرتے آرہے ہیں وہی حکومت کی جانب سے مسلسل نظر انداز ہونے کے ساتھ تشدد کا نشانہ بھی بنتے جا رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بولان میڈیکل کالج کے مسائل کی وجہ صوبے کے واحد میڈیکل کالج بولان میڈیکل کالج کا ایکٹ 2017 ہے جسے پچھلے حکومت نے نظروں سے گزارے بغیر پاس کردیا۔ جس کے روح سے میڈیکل کالج مکمل طور پر میڈیکل یونیورسٹی کی جائیداد بن گئی اور گورنر راج کے چلتے طلبہ کے مستقبل کو آتش کدہ میں ڈالتے ہوئے ادارے کو پرائیوٹائزیشن کی جانب کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔
مزید کہا گیا کہ ہاسٹلز کی تعداد کم کرنا، طلباء کو رات گئے ہاسٹلز سے بے دخل کر دینا، اسکالرشپ کی بندش، فیسوں میں ہوشربا اضافہ، سیلف فائنانس کا اجراء اور خالی سیٹوں کو پراونشل لیول تک لانا اسی ایکٹ کے وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ طلبہ نے اپنے دیرینہ مسئلے کے حل کے لئے احتجاج کا ہر طریقہ اپنایا کئی حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کی گئی انہیں اپنے سادہ مطالبات پیش کئے گئے۔ انہیں عہدیداروں کی جانب سے طلبہ کے مسائل کے حل کے لئے مسلسل یقین دہانی کی گئی مگر بعدازاں حکومت بلوچستان کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے طلبہ کے مسائل اب تک حل ہوتے نظر نہیں آرہے ہے۔ اسی وجوہات کی بنیاد پر طلبہ کے کثیر تعداد نے تا دم مرگ بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔ بھوک ہڑتال آ ج اپنے تیسرے روز میں داخل ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے طلباء کی حالت غیر ہوچکی ہے جنکے جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں ایک اور سنگین مسئلے کے جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا کہ بہاولدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی جانب سے بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کے لئے مختض اسکالر شپس کا خاتمہ طلبہ کے ساتھ علم دشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ 2013 میں بلوچستان میں معروضی حقائق اور تعلیمی زبوں حالی کے پیش نظر بلوچستان کے طلبہ کو مفت تعلیم اور رہائش کا فیصلہ کیا۔ جس سے کئی طلبہ نے حصول تعلیم کی تکمیل کے لئے پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے مالی بحرانات کا نام دے کر بلوچ اور پشتون اسٹوڈنٹس کو فیسیں دینے کا حکم دیا اور ان پر مختص تمام اسکالرشپس کا خاتمہ کیا جو دراصل غریب طلبہ کے ظلم ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی پنجاپ کے ایک اور یونیورسٹی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے بلوچ طلبہ کے لئے مختص اسکالر شپس کا خاتمہ کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کے لئے تعلیمی درواذے بند کئے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے طلبہ کے جانب سے پنجاب کے گورنر چوہدری سرور سے بھی ملاقات کی گئی گورنر کی جانب سے یقین دہانی کے ساتھ ایک لیٹر بھی جاری کی گئی جس میں یونیورسٹی میں اسکالر شپس کی بحالی کا حکم دیا گیا مگر یونیورسٹی حکومت کی بات کو ماننے سے قاصر ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس ظالمانہ عمل سے بلوچ اسٹوڈنٹس بیگانیت کا شکار ہوچکے ہیں اور تعلیمی مستقل کے حوالے سے کافی پریشان ہے جس کے لیے ہمیشہ کی طرح پھر سے احتجاجی کیمپوں کا رخ کرچکے ہیں اور شپ و روز اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔