بلوچ طلباء کی بے بسی – راشد رحمٰن بلوچ

181

بلوچ طلباء کی بے بسی

تحریر: راشد رحمٰن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“انتہائی جاہل” ان الفاظ میں سے ہے جو اکثر و بیشتر پاکستان میں بسے دو قوموں (بلوچ و پشتون) کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اگر آپ پنجاب میں جاچکے ہیں یا آپکا کبھی واستہ وہاں پڑا ہے تو یہ باتیں آپ کیلئے نئی نہیں ہونگی، یہ باتیں آپکو ان اساتذہ کے منہ سے بھی سننے کو ملتی ہیں، جو درس تو انسانیت کی، بھائی چارے کی، برابری کی دیتے ہیں لیکن یہ صرف کھوکلے دعوے اور الفاظ ہیں ان میں احساس مر چکاہے یہ باتیں صرف کلامی حد تک ہیں۔ اگر آپ یہ کہیں کہ میں تعصب کی بنا پر یہ باتیں کر رہا ہوں تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔

اب اگر دیکھا جائے تو بلوچستان جیسا پسماندہ صوبہ جہاں کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن یہ مال اس غریب لاچار اور بے بس عوام کیلئے نہیں ہے جن کی پیدائش اسی سرزمین بلوچستان پر ہوئی ہے۔

بلکہ یہ پاکستان میں ان اشرافیہ کیلئے ہیں جو ایلیٹ کلاس کے لوگ ہیں، جن کی عیش و عشرت کا سامان بلوچستان کے غریب طبقے کا خون پسینہ ہے۔ جن کا علاج معالجہ بیرون ملک میں ہوتا ہے اور جن کےبچے سالانہ ہزاروں کی حساب سے بلوچستان کو سی پیک کی مد میں ملنے والے اسکالر شپس پر باہر ممالک میں پڑھنے جاتے ہیں اور نتیجتاً بلوچستان کے لوگوں کے حصے میں جہالت اور پسماندگی چھوڑ جاتے ہیں۔

کیا لگتا ہے! یہ جہالت ہمیں ماں کے پیٹ سے یا وراثت میں ملی ہے! ہر گز نہیں۔ یہ جہالت اس ظالم و جابر نظام کی وجہ سے ہمیں ملی ہے، جو اسکول، اسپتال، بجلی اور دوسری بنیادی ضروریات کے لئے جو آئین و قانون نے تو ہمیں حقوق دئے تھے لیکن ان کی نظر ہوتے ہیں۔ یہ جہالت اس استاد کی وجہ سے ہمیں ملی جو اپنے بچے کو تو پرائیوٹ اسکول میں پڑھنے بھیجتا ہے لیکن غریب کے بچے کیلئے گھوسٹ ٹیچر بن کے پھرتا رہتا ہے۔ بلوچستان کا نام سامنے آتے ہی مسائل کا ایک انبار آپ کے آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے، چاہے مسئلہ بیروزگاری کاہو , پانی کا ہو, بجلی، صحت یا تعلیم سے جڑی کوئی بھی مسئلہ ہو۔ ان سب کے خلاف آپکو ایک طبقہ فکر کے لوگ آواز بلند کرنے والے ملیں گے اور وہ ہیں طلباء۔ دیکھیں تعلیم کسی معاشرے کی بنیادی اکائیوں میں سے ہے اور اسکے بغیر معاشرہ ادھورا ہے، یہ اجتماعی مسئلہ ہے اسکی کمی پورے معاشرے اور ملک پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن تعلیمی مسائل اجاگر کرنے میں لوگ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، ڈرتے ہیں۔

اچھا یہ بات بھی نئی نہیں ہے کہ پنجاب کے کالجز اور یونیورسٹیز میں بلوچستان کے مختص نشستیں ہیں اور وہاں پہ بلوچستان کے طلباء پچھلے کئی سالوں سے اسکالر شپس پر پڑھ رہے ہیں، لیکن پچھلے دو یا تین سالوں سے یہ سلسلہ سست روی کا شکار ہے، اس کے کئی اسباب ہیں۔ بلوچستان جیسے شورش زدہ علاقے میں جہاں نوجوان نسل بندوق کلچر سے نکل کر کتاب کلچر اور سیاست میں قدم جما رہا تھا، جہاں اسٹوڈنٹ طبقہ ہر اس مسئلے پہ کھل کر بات کر رہا تھا، جہاں بہتری لانے کی ضرورت تھی ایسے میں کئی رکاوٹ جان بوجھ کر رکھے گئے تاکہ یہ تعلیمی سفر تزلزل کا شکار بنے۔ اگر صاف لفظوں میں بات کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے طلباء میں سیاسی شعور اور پختگی نشوونما پا رہی تھی، عین اسی وقت طلباء کو کچھ ایسے مسائل میں الجھایا گیا جو انکے اس سیاسی پختگی کے عمل میں رکاوٹ بنی اور بلوچستان سے کثیر تعداد میں طلباء کی گمشدگیوں کا لہر دوڑنے لگا یوں بلوچستان یونیورسٹی جیسے مادرِ علمی میں وڈیو اسکینڈل جیسی شرمناک اور گھناؤنا کام عمل میں آیا۔ بولان میڈیکل کالج کو وسعت دیکر ایک میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو بلوچستان میں ایک امید کی لہر دوڑ گئی لیکن ایک ایسے سوچے سمجھے پلان کے تحت طلباء کو درسگاہوں سے نکال کر سڑکوں پر لایا گیا جہاں وہ کبھی تشدد کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ایسے ہی 2018 کو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں اوپن میرٹ کے سیٹس جن پہ کوئی فیس نہیں تھا ان پہ فیس چارج ہونے لگا، اور اس سال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورمیں اوپن میرٹ سیٹس پر بغیر کسی نوٹیفیکیشن کے اکیڈمک اور ہاسٹل فیس اور بہاؤالدین زکریا میں مختص نشستوں پہ فیس چارج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور 2018 ہی میں پنجاب یونیورسٹی میں اور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی بلوچ پشتون طلباء پر دوسرے سیاسی پشت پناہی ملنے والے طلبا تنظیموں نے تشدد کیا اور اس سے یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ طلباء یونیورسٹیز کا ماحول خراب کر رہے ہیں اس سے پہلے قائداعظم یو نیورسٹی میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔ اور اس سے یہ تاثر دیا گیا کہ بلوچستان کے طلباء یونیورسٹیز کے ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

چاہے بلوچستان کےرہنے والے طلباء ہوں یا ڈیرہ جات جس میں ڈیرہ غازی خان، راجن پور کے طلباء یا پھر پنجاب میں بلوچستان کے طلباء، آج اگر وہ سراپا احتجاج ہیں تو انکا مقصد ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ خدارا ہمیں پڑھنے دیا جائے۔ یہ مسئلہ ہمارے اکیلے کے نہیں تھے نہ ہی انکا حل ہم نے کرنا تھا، اگر بی ایم سی ایکٹ 2017 کی بات کی جائے یہ ترمیم اسٹوڈنٹس نے نہیں کرنا تھا بلکہ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو کرنا تھا، بلوچستان یونیورسٹی کا جو واقعہ پیش آیا تھا یہ تو ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے منہ پہ طمانچہ تھا انکو جب فرق نہیں پڑا تو تب طلباء کو مجبورا نکلنا پڑا، باپردہ بلوچستان کی بیٹیوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا لیکن پھر بھی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو شرم تک نہیں آئی۔ کچھ تو رحم کریں اس مظلوم قوم پر کچھ تو اچھا کریں جس سے آپکی شرمندگی میں کمی ہو۔ آج وہ لوگ جنہیں جاہل جیسے القابات سے نوازا گیا ہے علم کی بھیک مانگ رہے ہیں اور یہ ثبوت دے رہے ہیں کہ اصل میں جاہل ہم نہیں ان لوگوں کی سوچ ہے جو جہالت جیسے تہمت لگاتے ہیں۔

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے مسئلے پر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے وی سی کو بلایا اور ان سے معلوم کرنا چاہا کہ کس وجہ سے طلباء کے سیٹس ختم کردیئے گئے ہیں تو اس پر وی سی کا کہنا تھا کہ ان طلباء کی وجہ سے یونیورسٹی خسارے میں ہے اور مزید ان طلباء کو آگے پڑھایا نہیں جا سکتا، اور اسکے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ایک کمیٹی بنائی گئی اور اسکا میٹنگ ایک ہفتے کے بعد کیا گیا اور اس میں صرف ایک لیٹر اسٹوڈنٹس کے ہاتھ تھمایا گیا کہ 400 ملین کے ادائیگی کے بعد ہی اب انکو اسکالر شپس کی بنیاد پر داخلہ دیا جائےگا اور اسی لیٹر کی ایک کاپی بلوچستان حکومت کے نمائندوں کو بھیج دی گئی تاحال اس پر کسی نے نوٹس نہیں لیا ہے۔ پنجاب کا سی ایم بزدار اور بلوچستان کا جام کمال ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں دونوں نے ہی پچھلے پچیس دنوں سے جاری بلوچ طلباء کی حق میں بلوچ ہونے کے ناطے ایک مزمتی بیان تک نہیں دیا۔ یہ مسئلہ اتنا بھی بڑا نہیں جو حل نہ ہو سکے ہر جامعہ میں پولیس، آرمی آفیسرز، ٹیچر اور شہداء سمیت دوسرے لوگوں کا کوٹہ ہوتا ہے اور کئی کئی دہائیوں سے چلتے آرہے ہیں لیکن صرف ان لوگوں کا کوٹے پر اسکالر شپس ختم کرنا جو پہلے سے ہی استحصال کا شکار ہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر آج یونیورسٹیز کو مالی بحران کا سامنا ہے تو بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے ساتھ ساتھ دوسرے جو کوٹے ہیں وہ بھی ختم ہوجانے چاہئیے تھے لیکن انکے بارے ایسی کوئی نوٹیفیکیشن اب تک سامنے نہیں آیا ہے جو یہ ایک بڑا سوال ہے جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔