عنقا پبلی کیشنز شال کے زیر اہتمام براہوئی اور بلوچی زبان میں پہلا ادبی شمارا ”درین“ کی تقریب رونمائی کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہوا۔ تقریب کی صدارت شمارے کی ایڈیٹر غنی بلوچ نے کی۔ تقریب میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر حئی بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ نظامت کے فرائض زکیہ بلوچ نے ادا کیئے۔
قبل ازیں پروفیسر منظور بلوچ، نوشین قمبرانی، اے آر داد بلوچ، بلوچستان یونیورسٹی بلوچی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین رحیم مہر بلوچ اور اقبال ناظر نے ”درین“ کی تقریب رونمائی کی۔ بزم کا تیسرا حصہ بلوچی اور براہوئی مشاعرے پر مشتمل تھا جس کی صدارت براہوئی زبان کے شاعر حنیف مزاج نے کی۔
تقریب سے پروفیسر منظور بلوچ، اے آر داد، رحیم مہر، اقبال ناظر، سب ایڈیٹر یاسر جی ایم اور ایڈیٹر غنی بلوچ نے بلوچی اور براہوئی زبانوں میں بلوچ ادب میں نثر کی اہمیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
درین کی سب ایڈیٹر یاسر جی ایم نے ادب کی ضروریات اور درین کے اجراء، براہوئی و بلوچی زبان پر مشتمل ایک ادبی شمارے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس پر تفصیلی سے بات کی۔
منظور بلوچ نے کہا کہ براہوئی ادب کی ترقی و ترویج کیلئے آزادانہ میڈیم کی ضرورت ہے اس وقت بھی اس اکیسویں صدی میں براہوئی زبان کو خالص ادب کا میڈیم بھی میسر نہیں ہے۔ مختلف اداروں کے نام پر ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ ستر سال گزرنے کے باوجود براہوئی افسانہ اس مقام تک نہیں پہنچ پایا جس کی ضرورت اور توقع ہونی چاہیے تھی۔
اے آر داد نے کہا کہ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح بلوچی کی ترقی و ترویج میں اکابرین نے اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ سید ظہور شاہ ہاشمی، صباء دشتیاری، عبداللہ جان جمالدینی، حسین عنقا، عطا شاد، کریم دشتی، اکبر بارکزئی، بیگ محمد بیگل، آزات جمالدینی کی بلوچی ادب میں خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچی ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین رحیم مہر نے بلوچی نثری ادب میں ترجمہ نگاری کی روایت اور تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترجمے کے حوالے سے مکتبہ درخانی نے مذہبی ترجمے کی شروعات کی۔ جدید فکشن کے ضمن میں گارشیا مارکیز سے لے کر نجیب محفوظ کے ترجمے کیے گئے۔ آج کا دور ترجمے کے حوالے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اقبال ناظر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ براہوئی زبان و ادب کے فروغ کیلئے نثر کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
انہوں زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے ہاں سب زیادہ شاعری کا رجحان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے نثر پر بہت کم توجہ دیا جا رہا ہے۔
”درین“کے ایڈیٹر غنی بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچ ادب کے فروغ کیلئے ”درین“ کا اجراء کیا گیا ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل پہلا شمارہ جو کہ افسانہ نمبر ہے اس میں بلوچی اور براہوئی کے افسانے، ترجمے، روایت اور تبصرے شامل ہیں اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اگلا شمارہ بلوچ نثری ادب کی اہمیت سے متعلق ہوگا۔