ایک سیاسی کارکن کی ذمہ داری کیا ہے؟
تحریر: حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
ایک سیاسی کارکن کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے اور یہ بات ہمیشہ اس کے ذہن اور خیالات میں ہونا چاہئے آخر وہ کیا وجوہات یا مقاصد تھے جن کے حصول کیلئے اس نے اس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی ہے، بقول انقلابی جہد کار ڈاکٹر چے گویرا “میں بحیثیت انقلابی، جہد کار اپنے اس بنیادی حق کیلئے ہمیشہ و ہر وقت اپنے قیادت اور پارٹی سے لڑوں گا، جس حق کیلئے میں پارٹی اور جدوجہد کا حصہ بنا۔ بلاشبہ یعنی یہ ہر ایک سیاسی کارکن کا حق ہے اسے ذمہ داری سونپاجائے اور اسے موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ تحریک اور جدوجہد میں بحثیت ایک سیاسی کارکن اپنا تاریخی کردار ادا کرے۔
یقیناً آج کے طلباء تنظیموں کے ساتھیوں کو سمجھنا چاہیے وہ اپنے بنیادی حق کو کہاں اور کیسے ڈھونڈے، لازم نہیں حق کا یہ شعور اسے تنظیم میں کچھ وقتوں بعد آجائے بلکہ تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے اسے ہزار بار سوچنا چاہئے پھر اپنے شعوری فیصلہ پر تا حیات قائم دائم رہے اور اپنے منزل کے حصول کیلئے جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
اس دوران اسے اپنے لٹریچر میں اپنی قومی بقاء کے ہر اس سوال کو ڈھونڈنا چاہیے جو اسے اسکی منزل کیطرف با آسانی پہنچا سکتی ہیں، اسے یہ سوچنا چاہئے کہ وہ ایک عام نہیں، اسکا اب ہر فیصلہ تنظیمی دائرے میں ہے اس کا کوئی کام پرسنل نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام تنظیم اور قیادت کی نمائندگی کرتا ہے۔
ساتھیوں! ایک سیاسی کارکن کے ناطے آپ کو تنقید کی روح کو سمجھنا چاہیے اور ہم تنقید کو کس طرح اس دنیا میں لاسکتے ہیں، بحثیت ایک سیاسی کارکن آپ پر یہ فرض بنتا ہے کہ آپ اپنے آرگنائزیشن کے اندر ہر وقت تنظمی کاموں کا جائزہ لیں اور ان پر بے رحم تنقید کریں، اگر آپ خاموش رہ کر قیادت کے ہر جائز و ناجائز فیصلے کو کوئی قرآنی آیت مان کر خاموش ہونگے تو اس میں کوئی شک نہیں، آپ صرف اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں بلکہ عوام اور مظلوم قوم کو دھوکا دے رہے ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے آپ کو مقدس مان کر اپنا سب کچھ تم پر فدا کرنا چاہتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ آج کے بلوچ طلبا سیاست میں طلباء قائدین نے سیاسی اور جمہوری کلچر کو فروغ دینے میں ناکام رہے؟ شعوری سرکلز سے زیادہ ہوٹلوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں، بقول شیروف مری “کیا یہ لڑکے انقلاب لائیں گے جو ہوٹلوں پر بیٹھ کر ٹیبل پر مکے مار کر انقلاب کی باتیں کرتے ہیں، جس سے ٹیبل تو درکنار ٹیبل پڑا ہوا چائے کا کپ بھی نہیں ٹوٹے گا” جس پر لینن کیا خوب کہتے ہیں کہ ” For the revolution, revolutionary organization is necessary “
بقول ہمارے اس کماش اور بزرگ کے آج یہ تاریخ کا رحجان ہی نہیں بلکہ ایک فیصلہ ہے کہ ” قومیتں آزادی چاہتی ہیں اور عوام انقلاب چاہتا ہے”
آخر کیا وجہ ہیں موجودہ طلباء سیاست میں تنقید کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے؟ حالانکہ تنقید تنظیم کو منظم کرنے کیلئے روز اول سے ایک اہم کردار ادا کرتی آرہی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے موجودہ طلباء سیاست میں اب اسکی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ یہاں جب تک ہاں میں ہاں ملائیں آپ نہایت شریف ترین اعلیٰ انسان سمجھے جاتے ہیں، جہاں ذرا اختلاف رائے پیدا ہو، آپ منافق، احمق، بکاو کہلانے لگتے ہیں پتہ نہیں کس کس طرح کے طعنے کس کر آپ کو ڈی مورالائیز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بقول ہمارے ایک بلوچ لکھاری ہماری سیاسی پارٹیاں اب تک جمہوری کلچر کو اس لیے فروغ نہیں دے پائے، ماوزے تنگ کا مشہور زمانہ مضمون ” پارٹی اور اختلافات” سیاسی کارکنوں نے تو دور کی بات ہمارے اکثر طلباء تنظیموں کے رہنماؤں نے بھی شاید ہی پڑھا ہو۔
آگر آپ آج بھی صرف اسلیئے خوش ہیں کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور عوام کے اندر میرا نام ہے، عزت ہے تو یقین مانیں آپ اپنا موقف اور اس فیصلے کو بھول ہی گئے ہیں، جس کیلئے آپ نے اپنی پارٹی کو جوائن کیا تھا۔ بس آخر میں یہی کہتا ہوں بقول جون ایلیا ” ایک ہی تو حادثہ تو ہے وہ یہ ہے کہ آج تک بات نہیں کہی گئی آج تک بات سنی نہیں گئی۔ؔ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔