انقلابِ ثور کا آخری سرباز – انقلابی ورثہ

1634

کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ شہید

انقلابِ ثور کا آخری سرباز

تحریر: مشتاق علی شان

ستمبر 1996کی 27تاریخ اورکابل کے آریانا چوک کا منظر ۔۔۔۔ ۔ہر طرف رجعت پرستی کا طاعون اور ظلمت پرستی کا جنون ۔۔۔۔۔ سوشلسٹ افغانستان کا آخری صدر اور انقلاب ثور کا آخری سرباز کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ تختۂ دار پر سر بلند ہے ۔۔۔۔۔اس کا سر مرنے کے بعد بھی جھکا ہوا نہیں ہے اس کی گردن تنی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔وہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں کمیونسٹوں کی جرات و بہادری کا نشان ہے ۔۔۔۔۔۔ان روشن روایات کا تسلسل جس سے گرامچی، جیولیس فیوچک،کرسٹوفر کاڈویل،رالف فاکس، ڈیوڈ گیسٹ، بھگت سنگھ ،میر داد ،دکتور تقی ارانی ،خسرو روزبہ ،چے گویرا ،چارو مجمدار، نکولائی چاوشسکو ،حسن ناصر اور نذیر عباسی جیسے بے شمار کمیونسٹ شہداء کا نام وابستہ ہے۔وہ انقلابیوں کے وقار اور ان کی بہادری کی ایک اور داستان رقم کر رہا ہے۔اس کے دامن پر اپنے ہی لہو کے گلاب کھلے ہوئے ہیں لیکن اس کے ماتھے پر ندامت کا کوئی داغ نہیں۔ اس کے گلے میں رسیاں جھول رہی ہیں لیکن ان میں رسوائی کی کوئی زنجیر نہیں ہے۔ کابل کے اندھیرے اسے نہیں نگل سکے کیونکہ وہ روشنی کا نمائندہ ہے،اس لیے وہ تاریک غاروں میں اترنے کی بجائے اس درخشاں تاریخ کا حصہ بن گیا جو محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کے لہو سے سرخ ہے۔

انقلابِ ثور کہلانے والے افغان سوشلسٹ انقلاب کا سرخ پرچم 27اپریل 1978کو فضاؤں میں بلند ہوا تھا جس نے ظاہر شاہوں اور داؤد خانوں کو تاریخ کے کچراگھر میں پھینک کر اس امر کا اعلان کیا تھا کہ یہ نہ صرف افغان محنت کشوں بلکہ خطے کی مظلوم اقوام کے لیے بھی ایک نئی صبح کا پیغام ہے۔ اس انقلاب نے افغانستان میں شاہوں اور ان کے درباری ملاؤں اور جاگیروں کے مالکوں کے گٹھ جوڑ اور استحصال کی تمام شکلوں کا خاتمہ کر کے صدیوں سے کچلے ہوئے محنت کاروں کو اپنی تقدیر کا مالک بنایا۔ وسائل اورعلم و ہنر کے خزانوں پر بیٹھے کالے ناگوں کا سر کچل دیا اور عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کر دینا جرم قرار دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس انقلاب نے ڈیورنڈ لائن کے اس طرف بھی محنت کش عوام اور مظلوم اقوام یعنی مظلوم سندھیوں ، مظلوم بلوچوں، مظلوم پشتونوں او مظلوم کشمیریوں میں ایک نئے جوش اور ولولے کو جنم دیا ،کیونکہ دیگر کمیونسٹ انقلابات کی طرح یہ انقلاب بھی مظلوم قوموں کا ساتھی و مدد گار تھا۔ سامراج اور اس کے حواریوں کے تخت و تاج لرز رہے تھے کمیونزم کابل تک آپہنچا تھا ،یہ وہی کمیونزم تھا پیرس کمیون میں جس کا گلا گھونٹا گیا اور شکاگو میں اسے خون میں نہلا دیا گیاتھا۔لیکن کمیونزم نے خود کو زندہ و توانا ثابت کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔

امریکی سامراج کی قیادت میں اس انقلاب کے خلاف دنیا کے سارے شیطانوں نے اتحاد کر لیا اور اسے انقلابی آدرش کی خوب سزا دی گئی۔ یعنی انقلاب ثور اپنے آغاز سے ہی اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار تھا جس میں امریکا و یورپ سے لیکر ڈینگ زیاو پنگ کا چین ،ضیاء الحق کا پاکستان، سعودی عرب ، مصراور اسرائیل تک سب شامل تھے۔ یہ اور بات کہ برسوں پہلے افغانستان میں بارود کی فصل بونے اور رجعت پرستی کی آگ کو اپنے دامن سے ہوا دینے والوں کے اپنے آنگن بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔انقلاب کے قائد کامریڈ نور محمد ترہ کئی سازش کے تحت قتل کیے گئے اور انقلابِ ثور کو اس کے محور سے ہٹانے کی کوشش کی گئی مگر سامراجی ایجنٹ حفیظ اللہ امین محض تین ماہ بعد ہی اپنے انجام سے دوچار ہوا۔

ڈاکٹر نجیب اللہ کا شمار انقلابِ ثور کے قائدین میں ہوتا ہے وہ انقلابی کونسل کے رکن تھے۔ طالبعلمی کے زمانے میں مارکسزم سے متاثر ہونے والے کامریڈ نجیب اللہ نے کابل یونیورسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی جس کی اصل منزل سماجی امراض کا علاج تھی۔ان کا تعلق افغان کمیونسٹوں کے’’پرچم‘‘ دھڑے سے تھا جس نے خلق دھڑے سے انضمام کیا تھا ۔

وہ انقلاب کے بعد مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیتے رہے جن میں افغان انٹیلی جنس ’’خاد‘‘ کی سر براہی بھی شامل ہے۔ 1986میں کامریڈ نجیب ’’ خلق ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے اور اسی سال 4مئی کو انھوں نے سوشلسٹ افغانستان کے چوتھے صدر کے طور پر حلف اٹھایا ۔ ان کی ساری زندگی ایک انقلابی سپاہی کے طور پر گزری اور وہ امریکی امپریلزم اور اسکے جنونی گماشتوں کے خلاف ڈٹے رہے۔

وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ امریکی سامراج کو افغانستان یا افغانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ صرف اور صرف ہماری سرزمین پر قبضہ کر کے اسے اپنے عزائم کے لیے استعمال کرناچاہتا ہے اور انقلابی حکومت اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔امریکی اسلحے اور ڈالروں کے لیے ہاتھ پھیلانے والے اگر اسے دوست سمجھتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں امریکی سامراج کا مقصد صرف اور صرف افغانستان کی تباہی ہے۔‘‘ آنے والے وقتوں نے کامریڈ کے ان الفاظ کو حرف بہ حرف درست ثابت کیا ۔جنیوامذاکرت کے تحت سوویت افواج 1988میں افغانستان سے چلی گئیں تو دنیا بھر میں یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت اب دو چار دن کی مہمان ہے۔لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی سوویت افواج کو’’ مار بھگانے‘‘اور اس کی ’’اینٹ سے اینت بجادینے‘‘ کے دعویدار 4سال تک اس کا بال بھی نہیں اکھاڑ سکے۔ اس موقع پر بھی کامریڈ نجیب نے قومی مصالحت کی بات کی، امن کی بات کی دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کی بات کی انقلابی افغانستان کی بات کی،وہ ایک سچے کمیونست اور حقیقی سامراج مخالف وطن پرست تھے ۔ڈاکٹر نجیب اللہ پہلے مصالحت کار تھے جنھوں نے اس مقصد کے لیے ایک کمیشن بناکرجنگجوؤں کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ۔ اس زمانے میں ’’افغان قومی جرگہ‘‘ سے خطاب کے موقع پران کے الفاظ تھے’’ ٹھیک ہے آپ کہتے ہو کہ آپ نے سوویت افواج کو یہاں سے نکالا ہے ،آپ میں اتنی صلاحیت ہے تو اب یہ ہتھیار پھینک دیں اور وطن کی تعمیر نو میں شریک ہو جائیں،انقلابی افغانستان آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔‘‘

لیکن افغانستان میں امن اور قومی مصالحت نہ تو گل بدین حکمت یار، عبدلرب سیاف اور برہان الدین ربانی جیسے کرائے کے آلہ کاروں کو منظور تھی اور نہ ہی ان کے آقاؤں کو۔ ۔ 1992میں جب کابل کا محاصرہ کیا گیا اور جنگجوؤں نے بڑے پیمانے پر افغان عوام کا قتلِ عام شروع کیا تو اس موقع پر بھی کامریڈ نجیب اللہ امن کے قیام کو ترجیح دیتے ہوئے اقتدار سے الگ ہو گئے ۔یہ افغانستان کی پوری تاریخ میں ایک منفرد مثال تھی۔ اب ’’تختِ کابل ‘‘ کے لیے نام نہاد’’مجاہدین‘‘ آپس میں برسرِپیکار تھے۔وہ جس اقتدار سے امن کے نام پر دستبردار ہوئے اس تخت کے لیے ایک بھائی نے دوسرے بھائی کی گردن ماری تھی،مذہب کے بڑے بڑے استادوں نے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی اور داڑھیاں نوچی تھیں۔ اس کے بعد سے اپنی شہادت تک کا عرصہ کامریڈ نجیب اللہ نے کابل میں واقع اقوامِ متحدہ کے دفتر میں گزارا ۔اس کے بعد افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک سلگتا ہوا باب ہے ۔نام نہاد مجاہدین اب ایک دوسرے کے خلاف’’ جہاد‘‘ میں مصروف تھے جس کے نتیجے میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی کابل شہر جو انقلاب کے زمانے میں ایک جیتا جاگتا شہر تھا اسے قبرستان میں تبدیل کر دیا گیا ۔

اس ساری صورتحال کا منظقی نتیجہ طالبان کا ظہور تھا جنھوں نے وحشت اور سفاکی میں اپنے سے پہلے کے ’’مجاہدین‘‘ کو بھی مات دے دی۔ 27ستمبر1996کو طالبان کابل پر قابض ہو گئے اور اسی دن ایک عالمی سازش کے تحت قاتلوں کا ایک جتھہ اقوامِ متحدہ کے دفتر میں داخل ہوا جہاں ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کے بھائی شاہ پور کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کا جسم سگریٹوں سے داغا گیا ، ان کے اعضا ء کاٹے گئے ،ان کی لاش گاڑی سے باندھ کر کابل کی سڑکوں پر گھسیٹی گئی اور پھر کابل کے آریانا چوک میں لٹکا کر ان کے منہ میں ڈالر ٹھونسے گئے۔ یہ تھی وہ خصیص ذہنیت جو خود بانجھ اور خصی تھی جو خود امریکی ڈالروں کی پیداوار تھی اوریہ ڈالر ان کے اپنے خون میں شامل تھے ۔یہ طرزِ عمل تھا ان لوگوں کا جو خود کو مذہب کا استاد اور اسلام کا خیر خواہ کہتے نہیں تھکتے،جو خود کو راستی پر اور دوسروں کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ اس اندھیر نگری میں افغانستان پر جو گزری وہ دنیا دیکھ چکی ہے اور آج بھی دیکھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر میں بین الاقوامی قوانین کے تحت کامریڈ نجیب اللہ کو جو حفاظت حاصل تھی وہ انہیں نہیں دی گئی لیکن اقوامِ متحدہ کے دامن پر یہ پہلا خون تو نہیں تھا۔

افغانستان کے خود ساختہ ’’امیر المومنین‘‘ نے اعلان کیا کہ ’’یہ کمیونسٹ کافر تھا لہذا نہ تو اس کا جنازہ پڑھایا جائے نہ ہی اس کی تدفین کی جائے‘‘ لیکن ’’امیر المومنین‘‘ کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی ۔ان کی لاش آبائی علاقے گردیز ( پکتیا) لائی گئی جہاں ان کا جنازہ بھی ہوا اور تدفین بھی۔اقوام متحدہ کے دفتر میں قیام کے بعد کہیں ایسے مواقع آئے جب کامریڈ نجیب اللہ افغانستان سے باآسانی کسی اور جگہ منتقل ہو سکتے تھے مگر انھوں نے اپنی مٹی سے مستقل طور پر جدا ہونا گوارہ نہیں کیا اور ایک بہادر انقلابی کی طرح موت کو گلے لگا کر انقلابی روایات کو زندہ رکھا ۔ سسکتے بلکتے افغانستان کو ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کی قومی مصالحت اور امن کی پالسیوں کی بہت ضرورت تھی وہ آنے والے دنوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے جو سامراج اور اس کے گماشتوں کو کسی طور منظور نہ تھا یہی چیز ان کی شہادت کی وجہ بنی۔امریکی سامراجیت وہ گھناؤنا نام ہے جو نہ محنت کش عوام اور نہ ہی مظلوم اقوام کا مدد گار ہے یہ صرف اور صرف ننگی سرمایہ داری کا ایک فاشسٹ چہرہ ہے جو ضرورت کے تحت نقابیں بدلتا رہتا ہے لیکن اس کا ہر چہرہ خون سے آلودہ ہے۔ شہید نجیب اللہ کا چلے جانا اور ان کی پالیسیوں کا خاتمہ نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کی تباہی کی شکل میں سامنے آیا ۔ان کی حکومت کااگر ان کے بعد سے آج تک کی حکومتوں اور انقلاب سے قبل کی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ ان سے100گنا درست تھی۔ خود اس کی گواہی کوئی بھی ایسا افغان باشندہ دے سکتا ہے جو کمیونسٹوں کا کبھی حامی نہ رہا ہو۔آج کا افغانستان خاک اور خون سے اٹا ہوا ہے اور اس کی فضاؤں پر بارود کا دھواں چھایا ہوا ہے لیکن جب جب اس کی تاریخ لکھی جائے گی اس کے انقلابی بیٹوں کا ذکر ہوگا کامریڈڈاکٹر نجیب اللہ شہید کا چہرہ ان میں دمکتا رہے گا ،ان کا ذکر ہوتا رہے گا جبکہ اسے دار پر لٹکانے والوں کو خود کارل مارکس کے الفاظ میں ’’تاریخ نے لعنت کی سولی پر لٹکا دیا ہے‘‘۔