بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ چار سال قبل دالبندین سے لاپتہ حفیظ اللہ ولد رحیم محمد حسنی کی مسخ شدہ لاش چاغی میں پل چوٹو کے مقام سے ملی ہے۔ انہیں قتل کرنے کے بعد بے گور و کفن دفنا دیا گیا تھا جو حالیہ بارشوں اور پانی کے بہاؤسے ظاہر ہوگئی تھی۔ پیشے کے اعتبار سے کاشتکار حفیظ اللہ کو 30 اگست 2016 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ حفیظ اللہ کے چھوٹے بھائی نعمت اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ اس کے بھائی کو سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر کلی قاسم خان سے اغوا کیا تھا۔ حفیظ اللہ کی والدہ نے گزشتہ سال بی بی سی سے بات کرنے کے علاوہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلو چ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں انکشاف کیا کہ ان کے بیٹے کی بازیابی کے بدلے میں پاکستانی فوج کے ایک میجر میجر نوید نے 68 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ رقم کی ادائیگی کے باوجود حفیظ اللہ کو بازیاب نہیں کیا گیا۔
بی این ایم ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں اس طرح کے بے شمار واقعات کئی سالوں سے رونما ہورہے ہیں لیکن متاثرین خوف کی وجہ سے سامنے نہیں آتے۔ گوکہ حفیظ اللہ کی والدہ کی جانب سے انکشاف کے بعد میجر نوید کو کورٹ مارشل کرانے کا دعویٰ کیا گیا لیکن پاکستانی فوج کے دعوؤں اور بیانات پر نہ صرف بلوچ قوم بلکہ کئی پاکستانی غیر بلوچ صحافی بھی اعتراض کر چکے ہیں۔ فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے اگست 2019 کو دعویٰ کیا گیا کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے میجر نوید کی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی سزا کی توثیق کی ہے لیکن اس اعتراف اور قبولیت کے باوجود حفیظ اللہ پاکستان فوج کے ہاتھوں قتل اور بے گور و کفن ہونے سے نہیں بچ سکے۔ حفیظ اللہ کی قتل جیسے واقعات سے پاکستانی فوج بلوچ قوم کو کھلا پیغام دے رہا ہے کہ اگر کسی نے فوجی بربریت کو سامنے لانے کی کوشش کی تو اس کا انجام یہی ہوگا۔
ترجمان نے کہا آئی ایس پی آر کی جانب سے اپنے اہلکار کو سزا دینے کی اعلان ایک ڈھکوسلہ تھا۔ کیونکہ بلوچ نسل کشی ایک اہلکار یا ایک افسر کا کام نہیں ہے بلکہ ریاستی فوج اور دیگر ادارے بلوچ قوم کے خلاف صف آراء ہیں۔ اگر پاکستانی فوج کا اپنے اہلکار کے حوالے سے انکشافات میں رتی بھر سچائی ہوتا توحفیظ اللہ زندہ واپس آتا۔ حفیظ اللہ محمد حسنی کے اغوا کو قبول کرنے کے باوجود پاکستانی فوج نے انہیں ”مارو اور پھینکو“ پالیسی کا نشانہ بنایا۔ ایسے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کو یقین ہے کہ ایسے ہولناک بربریت کے باوجود انھیں کوئی پوچھ نہیں سکتاہے۔
بی این ایم ترجمان نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک میں دیگر جنگی جرائم کے علاوہ پاکستانی فوج بڑے پیمانے پر اغوائے برائے تاوان میں ملوث ہے۔ پاکستان کا بلوچستان کے معدنی وسائل سے جی نہیں بھرا تو اغوا برائے تاوان کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس سے پاکستانی فوج اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے ساتھ بلوچ نسل کشی کو بھی منظم طریقے سے سرانجام دے رہا ہے۔ حفیظ اللہ ان میں سے محض ایک واقعہ ہے جس کا اعتراف خود پاکستانی فوج کر چکی ہے۔ اگر ایک میجر نوید کو سزا ہوئی ہے تو دوسرے ہزاروں لاپتہ افراد کی زندگیوں کا جوابدہ کون ہے۔ اس ضمن میں عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے دلخراش واقعات پر رد عمل دکھا کر پاکستان کو احتساب کے کٹہرے میں لائیں۔
انہوں نے کہا کہ تربت میں شاہینہ بلوچ کا قتل اور ریاستی اداروں کی خاموشی بھی بلوچ نسل کشی کا تسلسل اور بلوچ معاشرہ کو ایک روادارانہ مزاج سے سخت گیر مزاج پیش کرنے کی پالیسی ہے۔ بلوچ قوم ایک سیکولر قوم ہے جہاں عورت کا عزت اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ خونی جنگوں میں جب کوئی خاتون فریقین کے درمیان میں آئے توجنگیں بند اورخون معاف کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی کالونی بننے اور ریاستی سربراہی میں مذہبی انتہا پسندی نے بلوچ معاشرہ بھی پر اثرات مرتب کئے ہیں۔ گزشتہ مہینے تربت آپسر میں حیات مرزا بلوچ کی والدہ نے بھی اسی امید سے فریاد کی تھی کہ ایک عورت کے احترام میں ایک معصوم نوجوان کی جان بخشی جائے گی لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتی تھی کہ مارنے والا انسانی اقدار سے محروم درندے ہیں۔