بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ11اگست بلوچ قومی تاریخ کا وہ یاد گار دن ہے جب آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بلوچستان کی آزادی کا اعلان ہوا۔ یہ اعلان طویل اور بے پناہ قربانیوں کے طفیل ممکن ہوا۔ 1839سے لے کر1947 تک بلوچ قوم نے برطانوی جارحیت کے مقابلے میں تاریخ ساز جدوجہد اورخون آشام جنگوں میں اپنے ہزارہا فرزندوں کی لہو پیش کی۔ لیکن کسی بھی مرحلے پر قبضہ گیریت کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ برطانوی ہندوستان میں بلوچستان کا درجہ الگ تھا اور بلوچ وطن کئی معاملات میں خود مختیار تھا۔
چیئرمین خلیل بلو چ نے کہا کہ 4 اگست کو وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن،محمدعلی جناح اور خان قلات احمد یار خان کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کیے جس کی رو سے بلوچستان کی آزادی تسلیم کی گئی لیکن بعد میں اپنے معاہدوں سے روگردانی کرکے محمد علی جناح اور برٹش سرکار نے بلوچستان پر قبضے کے لئے سازشوں کا سلسلہ شروع کیا۔ خاران اور لسبیلہ کی غیر قانونی الحاق کو قبول کیا گیا جو کہ تاریخی طورپر ریاست قلات کے حصے تھے۔ خاران قلات کے ماتحت ”علاقہ خاص“تھا اورمکران بھی ریاست قلات کا جزولاینفک حصہ تھا۔ ریاست قلات اور برطانوی حکومت کے درمیان باہمی معاہدوں کی رو سے انخلا کے بعد یہ علاقے بشمول مستجار علاقوں کے دوبارہ ریاست قلا ت کو ملنے والے تھے۔ لیکن پاکستان نے تمام اصول و قوائد اور خان قلات و محمد علی جناح کے درمیان معاہدوں کو روند کر بلوچ سرزمین پر قابض ہوا۔ پاکستان کی ریشہ دوانیاں اور جارحیت کے علاوہ خان قلات میر احمد یار خان کی مصلحت بھی پاکستانی قبضہ گیریت کا اہم سبب بن گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب الحاق کا مسئلہ آزادی کے فوری بعد تشکیل شدہ بلوچ ایوانوں میں پیش ہوا تو نہ صرف الحاق کی زبردست مخالفت کی گئی بلکہ مزاحمت کا فیصلہ کیا گیا۔ آغاعبدالکریم خان کے مزاحمتی کردار کے علاوہ وہ تمام کردار بلوچ قومی مزاحمتی میدان کے بجائے پاکستان کے ایوانوں میں نظر آتے ہیں۔ اگر بلوچ لیڈر شپ اپنے تاریخی فریضے کو احسن طریقے سے انجام دے پاتا تو شاید آج بلوچستان کی صورت حال مختلف ہوتی۔
انہوں نے کہا تاریخی طورپر کبھی ہندوستان کا حصہ رہے ہیں اور نہ ہی برطانوی قبضہ ہمیں برطانوی ہندوستان کا حصہ بننے پر مجبور کرسکا، لیکن مذہب کے نام پر عظیم ہندوستان کی تقسیم تاریخ کا وہ بدترین غلطی ہے کہ اس کا خمیازہ نہ صرف ہندوستان، بلوچ وطن بلکہ خطہ اور پوری دنیا کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔مغربی طاقتوں کو اپنے مستقبل کے مفادات کے لئے ایک چوکیدار اور طاقت کے توازن کی جنگ میں مہرہ چاہئے تھا۔اس مقصد کی حصول کے لئے پاکستان کو تراشنے کی شروعات توہوئیں لیکن تاریخی اور تہذیبی، مروج اصولوں کی بنیاد پر ہندوستان کے بطن سے ایک نئی ریاست کی کوئی جواز اور منطق نہیں بنتی تھی تو مذہب کے نام کا سہارا لیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ مذہب کے نام پرلاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا جس پر پاکستانی آج بھی فخر کرتے ہیں اور اسے پاکستان کے قیام کے لئے قربانی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس ریاست کے لئے خون تو کجا کوئی شخص جیل تک نہ ہوا۔ کیونکہ یہ فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا اور ہندوستانی لیڈرشپ اس کا بروقت ادراک نہ کرپائے۔ یوں ہندوستان تقسیم ہوا۔ اس کا نتیجہ دنیا کو اسلامی جوہری ہتھیاروں، دہشت گرد کے مرکز و منبع، دہشت گردی ایکسپورٹ اور خطے کی ہولناک صورت حال کی صورت میں درپیش ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ تاریخ کے ایک غلط فیصلے کی سزا سے بلوچ، سندھی، پشتون اور دیگر مظلوم قومیں بھگت رہی ہیں۔ اس کے ساتھ خطہ اور دنیا کے لئے پاکستان ایک ناسور بنتا جا رہا ہے۔ خطے کے ممالک اور عالمی طاقتوں کو اس امر کا ادراک کرنا چاہئے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی حمایت کی جائے اور بلوچستان کی آزادی کے لئے عملی اقدام اٹھائیں۔ کیونکہ بلوچستان کی آزادی سے نہ صرف بلوچ قوم بلکہ خطے کی مقدر جڑا ہوا ہے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ اس خطے میں امن وسلامتی اور پائیدار ترقی و تعمیر کی راہیں آزاد بلوچستان سے ہوکر گزر تی ہیں۔