ہمیں متحد ہوکر حقوق کے لیئے لڑنا ہوگا
تحریر: ثناء بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
حقوق کے لیے جنگ تب تک نہیں لڑی جاسکتی, جب تک متحد ہوکر نہیں لڑینگے, کیوںکہ جنگ لڑنے اور کسی بھی میدان میں کامیاب ہونے کا واحد رستہ ایک آواز ہونا, ایک ہی اسٹیج پر کھڑا ہونا, ساتھ مل کر دشمن کی سازشوں, کے خلاف ہونا ہوتا ہے۔ ایک لیڈر کی طاقت کا راز بھی متحد ہونے والی عوام ہوتی ہے, یعنی لیڈر کی سب سے بڑا طاقت عوام ہے۔
بلوچ سماج میں ہونے والے سازشوں کو بھی ناکام بنانے کے لیے ہمیں متحد ہونا ہے, جب تک ہم متحد نہیں ہونگے تب تک یہ ظلم, جبر, زندان ناانصافیاں, ٹارگٹ کلنگ, اسکینڈلز اور لاپتہ ہونے کا سلسلہ مزید ہمارے ساتھ چلتا رہیگا اس کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ ہمیں اب سے متحد ہونا ہوگا,ہمیں اپنے آپ کو سمجھنا ہوگا, ہمیں اپنے سماج میں زاکر مجید جیسا نڈر, لیڈر پیدا کرنا ہوگا, ہمیں اپنے دشمن اور دوست میں فرق ظاہر کرنا ہوگا۔
ان سب کو ظاہر کرنے کا واحد راستہ متحد ہونا ہے, اگر آج دور حاضر میں نواب مری جیسا مزاحمت کار لیڈر پیدا کیوں نہیں ہورہا ہے تو اس کی خاص وجہ ایک دوسرے سے نفرت رکھنے والے عوم ہے۔
ویسے تو ایک لیڈر کسی بھی سماج میں عوام کو یکجا کرتا ہے, لیکن لیڈر اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جس وقت عوام متحد ہوکر اپنےساتھ ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف کڑے ہوتے ہیں۔
اگر ہم آج دور حاضر میں ڈاکٹر ماہ رنگ کا مثال لیں، تو وہ ہر قسم کی مزاحمت میں شریک ہے, اپنے سماج میں ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف بول رہی ہے، لڑ رہی ہے,کیا ہمیں ڈاکٹر ماہ رنگ جیسا نہیں بننا؟ کیا ہمارے ساتھ ناانصافیاں نہیں ہورہے ہیں؟ کیا ہم مظلوم نہیں ہیں؟ کیا صرف ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایک شہید کی بیٹی ہے؟ کیا صرف ڈاکٹر ماہ رنگ کے گھر میں آگ لگی؟ کیا پورے بلوچستان میں صرف ڈاکٹر ماہ رنگ کے علاوہ اور کوہی نہیں؟ یا کوئی اور بلوچستان سے نہیں ہے؟ اب خاموش رہنے والا وقت گیا, اب ہمیں خاموش نہیں ہونا چاہیئے۔ اب ہمیں ظلم کے خلاف اُٹھنا ہے، بولنا ہے، لڑنا ہے, اگر آج ہم خاموش رہے تو ہمیشہ کے لیے خاموش رہینگے۔
کیوںکہ یہ متحد ہونے کا وقت ہے, ہم لاپتہ بلوچوں کے لیے آواز کیوں نہیں اُٹھاتے؟ کیا لاپتہ بلوچ ہمارے بہن,بھائی نہیں ہیں؟ کیا لاپتہ بلوچوں کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہیں؟ یہ سب ہماری نالاٸقیاں ہیں کہ اب تک ہمارے دلوں میں خوف ہے, ڈر ہے, ہمیں اپنے دلوں سے اب یہ خوف و ڈر نکالنا ہوگا, نہیں تو یہی خوف سے ہمارے دشمن فاٸدہ اُٹھاٸنگے, ہمیں مزید لاپتہ کرتے رہینگے۔,
پوری دنیا میں مسلمان عید منا رہے تھے, اور ہماری بہن,بھاٸیاں,کوٸٹہ کے سڑکوں پے رو رو کر اپنے لاپتہ بہن بھاٸوں کے رہائی کے لیے احتجاج کررہے تھے, اگر آج ہم متحد نہیں ہونگے تو کل کو ہماری بہنوں کی آنکهوں سے وہی آنسو ٹپکتے رہیں گی جو آج حسیبہ کے آنکھوں سے ٹپکتی رہی ہیں۔
آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ, بلوچستان کے لیے احتجاج کیوں کررہی ہے؟ آیا اُس کا کوئی بھاٸی لاپتہ ہے؟ کوئی چچا؟ کوئی ماموں؟ کوئی بھی لاپتہ نہیں ہے,لیکن وہ انہی رستوں میں بہت سفر کرچکی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔