بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے 11 اگست ’’یوم آجوئی‘‘ کے حوالے سے اپنے جاری کیئے گئے بیان میں کہا ہے کہ 11 اگست بلوچ وطن سے برطانوی قبضہ کے خاتمے اور بلوچستان کی آزادی کا دن ہے۔
بان میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک تاریخ ساز قومی دن ہے جو 1839 سے لے کر 1947 تک ایک طویل قومی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ برٹش توسیع پسندوں کے انخلاء کے بعد 11 اگست 1947 کو بلوچ ریاست کو دنیا کے نقشہ میں ایک آزاد ریاست کی طور پر تسلیم کیا گیا۔ خان آف قلات احمد یار خان نے 15 اگست 1947 کو ایک قومی و عوامی اجتماع سے اپنی قومی زبان بلوچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارا ملک آزاد ہے۔
مستقبل کی پالیسی کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی خودمختاری اور آزادی کا تحفظ کرتے ہوئے ہم آزادی کے علاوہ کسی اور چیز پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ انہوں نے داخلی اور خارجی پالیسی پر کھل کر بات کی۔ اپنے خطبات میں انہوں نے خانی نظام و بادشاہت کی شدید مخالفت کرتے ہوئے ایک جمہوری حکومت کی بات کی بعد میں ایک مروجہ آئین کا نفاذ کیا گیا جو تین حصوں پر مشتمل تھا، آئین کے نفاذ کے بعد پہلی دفعہ پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے، ایوان بالا اور ایوان زیریں کی بنیاد رکھی گئی جو بلوچستان کی آزادی اور خود مختاری کی وہ بنیادیں ہے جنہیں کوئی بھی چیلنج یا مسخ نہیں کرسکتا۔
ترجمان نے کہا کہ 11 اگست کے پیچھے ایک وسیع تاریخی پس منظر ہے اس کے پیچھے قربانیوں کا ایک لامتنائی سلسلہ موجود ہے آج یہ کہا جارہا ہے کہ خان نے الحاق کیا اگر خان نے بلفرض الحاق کیا تھا تو ایک پارلیمانی و جمہوری حکومت میں خان فردی حیثیت میں کس طرح الحاق کرسکتا ہے اسے یہ اتھارٹی نہ تو مروجہ بلوچ آئین دیتا ہے اور نہ ایسی کوئی دلیل جو فردی الحاق کے لئے بطور جواز قابل قبول ہو، ایک پارلیمان کی موجودگی میں ایک فرد کی کوئی حیثیت نہیں رہتی آئین کی موجودگی میں وہ کسی صورت مختیار کل نہیں بن سکتا۔
ترجمان نے کہا کہ آج کچھ نام نہاد دانشور جو بلوچ نمائندگی کے دعویدار ہوکر یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان آزاد ہوگا تو وہاں کا موچی پھر بھی جوتے گھانٹے گا اس طرح کی ڈھونگی موقف بلوچ قوم کا بیانیہ نہیں ہوسکتا یہ بلوچ قوم کے زخموں پر نمک چھڑکانے کی مترادف ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ بلوچ جدوجہد کی عظیم روایات اور میراث رکھتی ہے برطانیہ اپنی اثر و رسوخ کی موت دیکر جاتے جاتے بلوچستان کی آزاد و خودمختیارحیثیت کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ بلوچستان کی حیثیت برصغیر کے دیگر ریاستوں کی طرح نہیں بلکہ یہ ایک آزاد و خودمختار ملک ہے لیکن ریاست پاکستان نے الحاق کے لئے بلوچ پارلیمنٹ کو ایک پیغام بھیجا جس کے رد عمل میں بلوچ کانفیڈرنسی نے الحاق کے شرط کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ الحاق کی شرط ہماری آزادی اور خود مختاری کے خلاف اور 4 اگست 1947 کو دونوں ریاستوں کے درمیان ہونے والے معائدہ کے منافی ہے جس میں ریاست نے بلوچستان کی آزاد و خود مختیار حیثیت کو تسلیم کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الحاق ایشیاء کے کروڑوں بلوچوں کی موت کی دستاویز پر دستخط کرنے کی مترادف ہے۔