گریشہ تاپکو پرائمری سکول توجہ کا منتظر
تحریر: بختیار رحیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تابکو گریشہ خضدار کے سو گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ہے، وہاں دو کمروں پر مشتعمل ایک پرائمری سکول موجودہے۔ جو دوہزار تیرہ سے بندش کا شکار ہے اور تاحال بحال نہ ہوسکا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے 2013 سے پہلے ہمارے گاؤں کے سکول میں ایک عظیم نامی استاد ہمارے بچوں کو تعلیم دے کر اپنا فرض اور ذمہ داری پورا کرتا رہا۔ سکول کے استاد عظیم صاحب 2013 کے بعد سرکار کی طرف سے ریٹائر ہوا ۔ استاد کی ریٹائرڈمنٹ کے بعد اسکول کی خالی آسامی کو سرکاری اور محکمہ تعلیم کے زمہ داران کے شعبے کی طرف سے کوئی توجہ نہ دی گئی۔ مقامی افراد کا کہنا ہے ہم نے اپنے اسکول کی بندش اور استاد نہ ہونے کی رپورٹ ضلعی تعلیم کے زمہ داران کو کئی بار پیش کی۔ لیکن تعلیمی ذمہ داران کی طرف سے سکول کی بحالی کا کوئی مثبت عمل سامنے نہ آیا۔ سکول میں بچوں کو پڑھانے کے لئے استاد نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کے بیشتر بچے بنیادی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو رہے ہیں۔ کچھ بچے آٹھ دس کلو میٹر دور سرریج کے پرائمری سکول میں تعلیم جاری رکھنے کے لیے جانے پر مجبور ہیں۔
۔اسکے علاوہ تاپکو سکول کی مرمت اور بچوں کی تعلیم حاصل کرنے کی دوسری ضروری اشیاء کی کمی پر توجہ گذشتہ کئی سالوں سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی سالوں سے سکول کو کوئی توجہ نہ دینے کی وجہ سے سکول کے دروازے، کھڑکی اور روشن دان اکھڑ چکے ہیں، دیوار بھی اب کافی کمزور ہوچکے ہیں، جو گرنے کے قریب ہیں، اب تاپکو کا سکول کھنڈرات کی مثال پیش کر رہی ہے۔
وہاں کے مقامی افراد ضلعی تعلیم کے زمہ دار آفیسران سے ایک بار پھر گذارش کررہی ہیں کہ وہ ہمارے سکول کی بحالی کے لیے ایک اہم اور مثبت کردار ادا کریں، ہمارے بچوں کے مستقبل کو تباہی سے بچایا جائے۔ ہمارے اسکول پر توجہ نہ دینا استاد کی کمی کو پورا نہ کرنا، بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا ناانصافی اور ہمارے بچوں کے ساتھ علم دشمنی سے کم نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔