کیا ہمیں بس اتنی ہی اجازت ہے؟ – محمد خان داؤد

86

کیا ہمیں بس اتنی ہی اجازت ہے؟

 تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کاش کہ انصاف ہوجائے، کاش کہ اس ماں کے درد کا درمان ہو جائے، کاش کے اس بوڑھے باپ کی بے بسی عیاں ہو جائے، کاش کہ وہ ہاتھ عیاں ہو جائیں جو بلوچ بیٹوں پر گولیاں برساتے ہیں۔ کاش کہ وہ مُکروہ چہرے ظاہر ہو جائیں جو بوڑھی ماؤں کو مسافر بناتے ہیں، کاش کہ ا ن عیار ذہنوں کا پتہ چل جائے جو بہنوں کے مقدر میں سفر لکھ دیتے ہیں۔ کاش کہ ان انسانوں کا پتہ چل جائے جو ساتھ کھاتے ہیں، ساتھ پیتے ہیں اور آگے جاکر یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ کل رات اس نے کیا کھایا تھا۔ کاش وہ کھل کر سامنے آجائیں جو دوست نما دشمن ہوتے ہیں اور دشمن نما دوست۔

کاش کہ ان بد کرداروں کا پتا چل جائے جو بوڑھی ماؤں کو اذیت میں رکھ کر خوش ہو تے ہیں!
کاش کہ وہ ہجوم میں پہچانے جائیں جو بوڑھی ماؤں کی اُمیدوں میں گولیاں پیوست کرتے ہیں!
کاش کہ ان ہاتھوں کا بھی پتا چل جائے جو ہاتھ بلوچ بیٹوں کے گردنوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں گھیسٹ کر پکڑ کر بڑی گاڑیوں میں ڈال دیتے ہیں!
کاش کہ ان پیروں کا بھی پتا چل جائے جو پیر رات کے آخری پہروں میں چادر اور چار دیواری کا تقدس بھول کر کچی دیواروں کا پھلانگتے ہیں اور نیند سے جاگنے والی مائیں یہ سمجھ ہی نہیں پاتیں کہ ان کے ساتھ یا ان کے بچوں کے ساتھ یا ان کے کچے مکاں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟جب تک وہ وہاں تک پہنچ ہی جا تے ہیں جو انہیں درکار ہوتا ہے!

کاش ان جوتوں کا پیا چل جائے جو کچے مکانوں کے ہلتے دروں پر بہت ہی زور سے پڑتے ہیں اور در اس صدا سے کہیں دور جا کر گرتا ہے کہ
،،میں نہیں ہوں،ہاں وہ میں نہیں ہوں!،،
کاش ان چہروں کا پتا چل جائے جو چہرے کسی سیاہ کپڑے سے ڈھکے ہو ئے ہو تے ہیں اور دل اس بات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ اس سیاہ کپڑے کے پیچھے کوئی بھی ہے۔

وہ شناسا! شناسا ہے!
کاش اس زباں کا پتا چل جائے جو بروہی،بلوچی جانتی ہے پر جب کسی حیات بلوچ کے ماں کی بلوچی میں منتیں نہیں سنتی تو اردو کے غلیظ الفاظ سے مخاطب ہو تی ہے، جب بھی دل گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ اس کی گلابی غلیظ اردو کے پیچھے کوئی نہ کوئی بلوچی یا بروہی لفظ چھپنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

کاش ان آنکھوں کا پتا چل جائے جو آنکھیں دن کے وقت ریکی کرتی ہیں، گھروں میں آکر کسی مہمان ظاہر کر کے چائے پانی پیتی رہتی ہیں اور پھر وہی آنکھیں رات کے آخری پہروں میں وہ سب کچھ کرجاتی ہیں، جس کا گمان بھی نہیں ہوتا!

کاش ان دلوں کا پتا چل جائے جو دل ویسے تو بلوچستان کی وادیوں میں دھڑک رہے ہو تے ہیں
پر وہ دل بلوچستان کے عشق میں نہیں پر کسی کے پے رول پہ زندہ ہوتے ہیں
کاش ان نیتوں کا پتا چل جائے جن کے بدلنے کا کچھ پتا نہیں چلتا!
کاش اس بلوچ دشمنی کا پتا چل جائے جس میں دوست نما دشمن ہوتے ہیں اور دشمن نما دوست!
وہ جو اپنے اپنے سے ہیں
وہ جو پرائے پرائے سے ہیں
وہ جو زباں سے بلوچ ہیں
وہ جو دل سے غیر ہیں
وہ کون ہیں؟ وہ کہاں سے آتے ہیں؟
اور وہ بلوچ ماؤں کے دکھوں اور دردوں میں اضافہ کیوں کر رہے ہیں؟
وہ جو بس جوان بلوچ بیٹوں کے دشمن نہیں
پر وہ بلوچ ماؤں
بلوچ ماؤں کے سپنوں
بلوچ ماؤں کی اُمیدوں.
اور بلوچ ماؤں کی نیند کے دشمن ہیں

جب وہ بلوچستان کی وادی میں کوئی کاروائی کرتے ہیں۔وہ جب کسی بلوچ بیٹے کے سینے میں گولیاں اتارتے ہیں تو بلوچ ماؤں کی نیندیں ماری جاتی ہیں اور ان کے نصیب میں رتجگے آجاتے ہیں پھر وہ بلوچ مائیں کبھی نہیں سوتیں!
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو گولیاں حیات کے سینے سے آرپار ہوئی وہ بس حیات تک محدود تھی؟!
وہ گولیاں حیات کی ماں کے جسم میں پیوست ہوچکی ہیں اور وہ ماں گھائل ہو چکی ہے
اور اب بلوچستان تڑپ رہا ہے!

بلوچستان تو کئی سالوں سے گھائل تھا۔ بلوچستان تو ڈیتھ اسکواڈ کے زیرتسلط تھا، جب جس کا دل کرے وہ اسے قتل کردے اور مسنگ پرسن اور مسخ شدہ لاشوں کا تو قصہ ہی اور ہے!
پر حیات کے ناحق قتل نے بلوچستان کے روح کو گھائل کر دیا ہے،
اب بلوچستان بھی پوچھنا چاہتا ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک رہے گا
کب تک مائیں اپنے بچوں کو بچانے کے لیے بندوق والوں کو منتیں کرتی رہیں گی؟
کب تک مائیں اپنے بچوں کوبچانے کے لیے ان پر اوندھے منہ گرتی رہیں گی؟
کب تک قتل ہونے کے بعد مائیں ہاتھ اوپر اُٹھا کر خدا کو تلاش کرتی رہیں گی؟
یہی سوال آج حیات بلوچ کے احتجاج میں بلوچ بیٹیاں، بلوچ مائیں اور بلوچ بیٹے کوئٹہ سے لیکر کراچی تک پوچھ رہے ہیں!
کاش ان ذہنوں کو پتا چل جائے جو بلوچ دشمن ہیں!
کاش ان ذہنوں کا پتا چل جائے جو پڑھے لکھے بلوچ کے دشمن ہیں!
کاش مُکروہ چہروں کا پتا چل جائے جو بلوچ دھرتی کے دشمن ہیں
پر یہ بھی تو سوال ہے کہ کیا ہر بار کوئی بھی حیات اپنی حیات کھو بیٹھے گا بلوچ بیٹیاں احتجاج کریں گی
پھر طویل خاموشی چھا جائیگی پھر کوئی حیات جان سے جائیگا پھر احتجاج ہوگا،پھر طویل خاموشی!
کیا بلوچ بیٹوں کا ناحق قتل،احتجاج، اور طویل خاموشی سے بھی آگے کچھ ہے؟
یا ہمیں بس اتنی ہی اجازت ہے؟
پر ایک ماں کو بیٹے سے ملنا ہے
وہ بیٹا جو کہاں ہے؟ کوئی نہیں جانتا
وہ بیٹا جو شال کے پتھروں کے نیچے دفن ہے سب جانتے ہیں
وہ ماں اپنے گم شدہ بیٹے
اور ناحق قتل کیے بیٹے سے تب مل سکتی ہے جب اسے نیند آئے
اور بندوق برداروں نے ماں کی نیند کو قتل کر دیا ہے

یہ بات نہ تو وہ آئی جی ایف سی جانتا ہے جو اس گھر گیا جس گھر کا در وازہ بھی اداس تھا
اور نہ وہ سیاست کار جو بے شرم ہیں
بے حیا ہی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔