بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4049 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او کے چیئرمین نذیر بلوچ، عاطف بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ جان محمد، امداد اللہ، حسان قمبرانی، حزب اللہ قمبرانی اور جہانزیب کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس موقع پر وی بی ایم پی رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ کُرب، دکھ اور بے بسی کی یہ داستان ان ماوں کی ہے جن کے جگر کے ٹکڑے کئی برسوں سے لاپتہ اور مختلف زندانوں میں ظلم و تشدد کی چکی میں اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان میں سے کئی ایک اپنی زندگی کی بازی ہارکر ہمیشہ کے لیے اس دنیا فانی سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کے لواحقین کو اس بات کا علم تک نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج سے نہیں بلکہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تو ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ ظلم کا بازار کہاں گرم ہوتا ہے، کون صدیوں سے اس کی لپیٹ میں اپنی زندگیوں سے پشیمان ایک بے حال اور خاموش تصویر کی عکس بندی کررہا ہے۔ آج جو کچھ یہاں ہورہا وہ انہی ظلم کی داستانوں کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خدا کا واسطہ دے کر خاموش ہونے کو کہا جاتا ہے کہ اب ہم ان کے زخموں پر مزید نمک نہ چھڑکیں یعنی ان کی یادوں کو پھڑ سے تازہ کرکے ان کے لیے درد اور عذاب نہ بنائیں۔
دریں اثناء مستونگ کے رہائشی لاپتہ امداد اللہ کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ان کے جبری گمشدگی کے تفصیلات وی بی ایم پی کے پاس جمع کی۔
ان کے بھائی نے بتایا کہ امداد اللہ ولد مولوی محمد حنیف کو مئی 2014 کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گھر پر چھاپہ مار کر حراست لیکر لاپتہ کردیا بعدازاں پندرہ روز بعد انہیں رہا کردیا گیا لیکن 5 مئی کو انہیں اسپلنجی سے موٹر سائیکل پر آتے ہوئے دوبارہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے لاپتہ کیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب انہیں پہلی بار لاپتہ کیا گیا تو خفیہ اداروں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کے ساتھ فرنٹیئڑ کور اہلکار وردی میں موجود تھے۔
احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ جان محمد بلوچ کی زوجہ نازیہ نے بتایا کہ 26 جولائی 2015 سے جان محمد جبری گمشدگی کا شکار ہے، ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ جان محمد بلوچ کو بازیاب کیا جائے۔