وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 4029 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او کے مقصود احمد، مرتضیٰ بلوچ، نوید بلوچ اور وحید بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ آپریشن میں مستونگ، قلات اور آواران میں پاکستانی فورسز کی بھاری تعداد نے جدید ہتھیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے مسلسل کئی روز تک جارحیت جاری رکھی، جس میں مقامی ذرائع کے مطابق عام آبادی نشانہ بنی۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران مقامی آبادی کے گھروں کو مسمار کیا گیا اور انہیں شدید جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا جس میں درجنوں عام افراد شہید اور زخمی ہوئے جبکہ بڑی تعداد میں حراست میں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ان فوجی آپریشنوں کے خلاف بلوچ سماج کے تمام حصوں کی طرف سے شدید ردعمل بھی دیکھنے کو ملا جو ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ قوم نے فورسز کی ان کاروائیوں کو جارحیت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ حلقے موجودہ کاروائی کو مقتدرہ عسکری قوتوں کے اس بیان کا عملی روپ قرار دے رہے ہیں جس میں بلوچ پرامن جدوجہد کو کچلنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں پر ڈھائے جانے والے ریاستی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی سے لے کر گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں بلوچ نسل کشی تک ایسی کونسی حد رہ گئی ہے جس تک پہنچا نہیں گیا ہو یا اسے پار نہ کیا گیا۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ سماج میں اس کے ردعمل میں بین الاقوامی برادری اور انصاف کے عالمی اداروں سے بلوچستان میں جاری ریاستی طاقت کے استعمال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اداروں سے بلوچستان میں جاری ریاستی طاقت کے استعمال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ دار حکمرانوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔