کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

177

بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4028 دن مکمل ہوگئے ہیں۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے  اور مختلف مکاتب فکر کے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور المیوں کا تسلسل آنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کررہا ہے جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں نہ تو بلوچ قوم کو باوقار طور پر زندہ رہنے کا حق ہے اور نہ ہی انہیں پاکستانی حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کے مطابق جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طرف عمل اپنی ساخت میں نوآبادیاتی اور نتائج میں بلوچستان پر اپنا تسلط مضبوط بنانے اور بلوچ نسل کشی کا عامل ہے جس کا انحصار ریاستی طاقت کے بے مہار سفاکانہ استعمال پر ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچ قومی حقوق کے لیے بلند ہونے والی ہر آواز کو خاموش کرنے کے لیے ٹارگٹ کلنگ، اغواء نما گرفتاریوں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سمیت اٹھاو، مارو اور پھینکو کے ہتھکنڈوں کا استعمال نمایاں ہے۔ اس پالیسی کے تحت اب تک 54000 ہزار بلوچوں کو ریاستی خفیہ اداروں اور فورسز نے اٹھاکر لاپتہ کردیا ہے جبکہ ہزاروں کو شہید کیا جاچکا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچوں کا جرم یہ ہے کہ یہ وہ حق کے لیے اور لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کرتے ہیں اور جمہوری انداز میں آواز بلند کررہے ہیں جو حکمرانوں کے جمہوریت کے دعووں اور مسلمہ جمہوری قوانین اور اصولوں کے عین مطابق ہے لیکن پاکستانی بالادست قوتوں کے نزدیک کئے گئے جمہوری دعوے اور اصول بلوچ قوم کے لیے نہیں بنائے گئے۔