بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے میڈیا کو جاری بیان میں تربت میں نہتے طالب علم کی ایف سی کے ہاتھوں شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف ریاستی جبر و تشدد میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ترجمان نے کہا گذشتہ روز پاکستانی مسلح افواج نے تربت کے قریب آبسر کے علاقے میں حیات نامی نوجوان کو ان کے والدین کے سامنے اغواء کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا پھر گولیاں مار کر شہید کردیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ بلوچستان میں پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور خاص طور پر تعلیمی یافتہ نوجوانوں کو چن چن کا قتل کیا جارہا ہے، حیات بلوچ کی شہادت پر مقامی پولیس کا یہ کہنا کہ ایک اہلکار کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے جو انسانی حقوق کے اداروں اور عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے کیونکہ شہید حیات کے والدین کے مطابق درجن سے زائد اہلکاروں نے ان کے نہتے بچے کو مل کر تشدد کا نشانہ بنایا اور ہاتھ اور پاوں باندھ کر اسے قتل کردیا۔
بی آر پی کے ترجمان نے کراچی میں لاپتہ نوجوان نسیم بلوچ کی بازیانی کیلئے احتجاج کرنے والی ان کی منگیتر حانی گل بلوچ، لاپتہ سارنگ جویو کی اہلیہ سونی جویو اور سسی لوہار، صورت لطیف اور سندھ سے تعلق رکھنے والے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین پر پولیس کی جانب سے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو پہلے ہی مسلسل خاموش رہنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں اور اب ان پر حملہ آور ہونا لاپتہ افراد کے خاندانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے۔
شیر محمد بگٹی کا کہنا تھا کہ گذشتہ رات سوراب میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم ماما قدیر بلوچ کے گھر پر بھی ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ماما قدیر کا نواسہ بالاچ زخمی ہوا ہے
بی آر پی کے ترجمان نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں ریاستی تشدد کے خلاف آواز بلند کریں وگرنہ ان کی مسلسل خاموشی کے سبب ریاستی عسکری ادارے اپنی کاروائیوں میں تیزی لا رہے ہیں جو کہ انسانی حقوق کی مزید سنگین پامالیوں کی وجہ بن رہے ہیں۔