نواب اکبر خان نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے امر ہوگئے – چیئرمین خلیل بلوچ

511

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے شہدائے تراتانی کی چودھویں برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ تراتانی بہادری، جرات، قربانی، بلوچ نیشنلزم اور مزاحمتی تاریخ کا ایک یادگار باب ہے۔ نواب اکبر خان نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ تاریخ شناس اکبر خان اس امر کا بہت پہلے ادراک کرچکے تھے کہ پاکستان بلوچ ساحل اور وسائل ہڑپنے کے لئے جلد یا بدیر سامراجی منصوبے عمل میں لاسکتا ہے لیکن نام نہاد قوم پرستوں نے انہیں ساتھ دینے کے بجائے مبہم نعروں کی سیاست جاری رکھی۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ نواب صاحب کا ادراک حقیقت پرمبنی تھا اورحقیقت کا مقابلہ کرنے کے لئے انہوں نے اپنی گزشتہ پارلیمانی سیاست کے برعکس مزاحمت کا کردار اپنایا۔ وہ اپنی فہم و بصیرت سے اخذ کر چکے تھے کہ بلوچستان کا مسئلہ، بلوچ قومی وسائل اور بلوچ زبان و ثقافت کا دفاع پاکستان کی وفاقی نظام میں نہیں بلکہ ایک آزاد بلوچ ریاست میں مضمر ہے۔

انہوں نے کہا نواب اکبرخان بگٹی ایک بلند پایہ سیاستدان کے علاوہ کثیرالجہت انسان تھے۔ وہ سیاست میں مختلف نشیب و فراز سے گزرچکے تھے۔ یہ ان کی تاریخ شناسی تھا کہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لئے میدان جنگ کا رخ کیا اور آخری دم تک جرات، بہادری اور استقلال سے لڑے اور بلوچ قومی تحریک میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ وہ اپنی عظیم قربانی سے قومی تحریک میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ان کی تاریخی فیصلوں نے انہیں امر کردیا جبکہ اس دور کے پاکستانی حکمران جنرل مشرف خود اپنے ملک سے مفرور اورگمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکبرخان نے اپنی وراثت میں بلوچ تاریخ کو مزاحمت کے انمول باب سے سرفراز کیا۔ انہوں نے نشیب و فراز سے بھرپور زندگی گزاری لیکن آخری سالوں میں انہوں نے بلوچ نیشنلزم کے لئے تاریخی معرکہ انجام دی۔ اکبرخان ایک بلند پایہ سیاستدان، کثیرالمطالعہ عالم اور تاریخ کا نبض شناس انسان تھے۔ انہیں اپنی سرزمین اور اپنی روایات سے عشق تھا۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس طاقت اور انسانی اقدار سے عاری پاکستان انہیں پیرانہ سالی میں سرتسلیم خم پر مجبور نہ کرسکا۔ وہ شہید ہوکر امر ہوگئے اور پاکستانی فوجی تکبر کو خاک میں ملادی۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہماری مزاحمتی تاریخ بہت توانا ہے لیکن اکیسویں صدی کے مزاحمتی تحریکوں میں بلوچ قومی تحریک آزادی ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ آج بلوچ کا تاریخ لہو سے لکھا جا رہا ہے۔ ہمارے بھائی اور بیٹے روزانہ قتل ہورہے ہیں۔ پورے بلوچستان میں فوجی کاروائیاں روز کا معمول بن چکے ہیں۔ بلوچ کا مال و متاع لوٹے جارہے ہیں۔ گھر بار جلائے جارہے ہیں۔ نہ صرف فوج بلکہ پارلیمانی دلالوں اورسینکڑوں ڈیتھ سکواڈز کے باوجود دشمن پاکستان قومی تحریک کے سامنے بند باندھنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ پوری قوم تحریک سے والہانہ وابستگی رکھتاہے۔ جد و جہد اور قربانیوں کا یہ سفر جاری ہے۔

انہوں نے کہا اکبر خان اور ساتھیوں نے ایک عظیم خواب کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بلوچ آج بھی اپنے فرزندوں کی لہو کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ نیشنلزم نہ صرف بلوچ قوم بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدل دے گا اور آزاد بلوچستان کے قیام سے پاکستانی بربریت سے دوچار قوموں کے لئے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

انہوں نے کہا پاکستانی ریاست نواب صاحب کی شخصیت کے سحر انگیزی سے اس طرح خائف تھا کہ اس نے ان کی جسد خاکی کو ورثاء کے حوالے کرنے کے بجائے تابوت میں تالا لگا کر دفن کیا۔ مگر ان کی فکر اور سوچ کو قید نہیں کرسکے اور وہ آج تک ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ان کے فکر و فلسفہ آزادی پر کاربند رہنا ہے۔ ان کی قربانی کا مقصد بلوچ قومی آزادی کا حصول تھا۔ان کے فکری وارث بلوچ ہیں اور بلو چ قوم ان کے مشن کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں نواب بگٹی کے اپنی منفردشخصیت کی وجہ سے پرستار پہلے ہی موجود تھے مگر اس عملی جدوجہد اور قربانی سے وہ طلسماتی شخصیت بن گئے۔ انہوں نے بگٹی قبیلہ سمیت تمام بلوچوں میں جذبات کی ایک نئی روح پھونک دی۔ گوکہ اس فیصلے کے بعد انہیں دشمن پاکستان نے زیادہ موقع نہیں دیا اور ایک خونی آپریشن میں انہیں 2006 کو آج کے دن کئی ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔ ان کی شہادت یقیناًایک بڑی نقصان ہے مگر انہوں نے بلوچ قوم خاص کر نوجوانوں میں ایک ولولہ انگیز جذبہ پیدا کیاجو منظم تحریک کی صورت میں ان کی خلا پر کررہے ہیں۔