نوآبادیاتی تسلسل اورشہید حیات بلوچ
تحریر: اعجاز بابا
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ شاہد ہے کہ پچھلے ستر سالوں میں پاکستان نے غیر آئینی طور پر اپنی نوآبادیاتی تسلسل اورسامراجی پالیسیوں کو بلوچستان پر رائج کیا ہے جس سے سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے، علاوہ ازیں بلوچوں پر اپنی لاقانونیت ,Anarchy اور ظلم و ستم کا یہ تسلسل بدستور من و عن جاری ہے۔
بقول شاعر ۔۔۔۔
“وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطاء کی تھی صدیوں نے سزا پائی”
اسی طرح پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچستان میں جس طرح سنگین انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے، یہ پریشان کن ہے جہاں بچے, عورت اورنوجوانوں کو اٹھانا، اغواء کرنا اور انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک دینا معمول بن گیا ہے۔
اس جبر سے جنم لینے والے انسانی بحران سے آج پوری دنیا بخوبی واقف ہے، جبکہ حیات کی شہادت نے پاکستانی جنگی جارحیت کا پردہ چاک کیا ہے کہ کس طرح ایک نوجوان جو اپنے والدین کے ساتھ باغیچے میں کام کر رہا تھا، ان کو ان کے بوڑھے والدین کے سامنے کس طرح گھسیٹ کر لے جایا گیا اور بعد میں کس طرح بےدردی سے آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ کیونکہ اس خون خوار قوم کو اس آزادی میں ایک بیش بہا تحفہ چاہیے تھا وہ حیات بلوچ کی شکل میں انہیں مل گیا۔
پاکستان کو آزادی مبارک ہو۔
حالانکہ یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے اس طرح کے ستم تو کئی عرصوں سے بلوچستان میں مختلف صورتوں میں ہوتا آرہا ہے۔ اسی تسلسل کےساتھ بھٹو صاحب کی بلوچوں پر سازش اور ظلم کو بھی برداشت کیا گیا ۔اسکےعلاوہ بلوچستان کے مظلوم عوام نےجنرل ضیالحق کی نام نہاد اسلامی جمہوری پالیسی , فاشسٹ قوم پرستی اوردہشت گردی جیسے عناصر کو فروغ دینے کے سازش بھی دیکھے ہیں، کیونکہ ضیاءالحق ایک” مائنڈ سیٹ” کا نام ہے۔ جسکی “legacy” اور نظریہ آج تک جاری و ساری ہے۔
جس نے بلوچ نسل کو مٹانے کی بھر پور کوشش کی لیکن جلد خدا کی پکڑ نے اسکی وجود کو نیست و نابود کیا۔
ہمیں آج بھی یاد ہے کہ یہ وہی پاکستانی ریاست ہے جس نے اپنی آمریت, غیر منصفانہ پالیسی اور نوآبادیاتی تسلسل سے بنگلہ دیش میں نسل کشی اور خون ریزی کرتے ہوئے ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ بنگلہ دیش کے اب تک مظلوم عوام اپنے بچوں کو جنرل نیازی کی بربریت اور وحشت زدہ عمل کی کہانی سناتے ہیں کہ کیسے بنگالیوں کا سر عام قتل و غارت اور عورتوں کا “Rape” کیاگیا۔
لیکن پاکستان کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہیےاور1971 کی جنگ سے کچھ سیکھنا چاہیے کہ کسطرح آپکو بری طرح ہار کا منہ دیکھنا پڑا اور اب یہی عمل اور غلطی بلوچستان کے ساتھ بھی کررہی ہے۔ ہم نہیں بھولے ہیں کہ جنرل مشرف نے بلوچوں کی وجود کو اجاڑنے کی کوشش کی اور نواب بگٹی کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا جسکی شہادت کی آگ آج تک بلوچ قوم کی دلوں میں جل رہی ہے۔
اسی طرح آج حیات کا قتل بھی “ایکسٹرا جوڈیشل ” قتل تھا۔ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کیونکہ حیات بلوچ ایک باشعور ,قابل اور سوچنے والا طالب علم تھا۔ اس لیے مارا گیاکہ وہ ایک بلوچ ,محنت کش باپ کا بیٹا اور بلوچستان کا باشندہ تھا اس لیے قتل کیا گیا۔
آج پوری دنیا حیات کو انصاف دینے اور جلد از جلد اسکے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے پر امن جدوجہد اور احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حیات کو کس جرم کی سزا دی گئی؟
غالباً جواب بھی آئینے کی طرح صاف اور واضع ہے کہ یہ ریاست بلوچ قوم کو صرف اپنا غلام سمجھتی ہے۔ اگر آج بلوچستان میں جو شعوری سوچ رکھتا ہے یا سوال و جواب کرتا ہے یا تو حق اور سچ کی باتیں کرتا ہے اسکا یہی حال ہوگا لیکن ایک بات پر یقین دہانی کرنی چاہیے کہ آج حیات مارا گیا تو کل ہم میں سے کوئی ہوگا، یہ جبر کا سلسلہ یوں جاری رہے گا۔
کیونکہ نو آبادیاتی تسلسل اور سرمایہ داری کی جڑیں مضبوطی پکڑ چکی ہیں، اسی توسط سے ایک عظیم فلاسفر نے کہا تھا کہ” ریاست ایک منظم جبر کا ادارہ ہےجہاں پر حکمران اپنی حاکمیت کو بر قرار رکھنے کیلیے ظلم کا سہارہ لیتے ہیں۔ “
حالانکہ, ہزاروں حیات کو اس ریاست نے موت کے گھاٹ اتارا ہے، بلوچوں کے علاوہ پشتون اور سندھی بھی اس قہر سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔
مزید بلوچ قوم نےاس وباء کے دنوں میں بہت سی لاشیں اٹھائی ہیں، جن میں برمش کے والدہ ہوں یا برمش کے زخمی ہاتھ جو جبر کی انتہا کی مثال ہیں, شہید ملک ناز, شہید کلثوم اور دیگر ہزاروں۔
جنہیں بد بختی سے ہماری میڈیا اور انسانی حقوق کے اہلکار “highlight” نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن افسوس پاکستانی میڈیا “Commercialized” ہو چکی ہے۔ پاکستانی میڈیا کو انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی موت جیسے عناصر کوریج کرنے سے آنچ آتی ہے لیکن کشمیر اور فلسطین کے قتل و غارت کے خلاف ہزاروں نشریات چلائے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا جنہیں حالیہ دنوں میں مارا گیا تھا انہیں انصاف ملا ؟ انکے قاتلوں کو سزا ملا ؟ اگر نہیں تو حیات کے قاتلوں کو بھی کبھی سزا نہیں ملے گی، یہ ننگی جاریت اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہے گا۔
لگتا ہے اب ہمیں عالمی اداروں کے دروازے کھٹکٹانے ہونگے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور انکے نمائندوں سے امید رکھنی چاہیئے کیونکہ ہماری حکومت کی کیفیت اتنی بری ہے کہ اب وہ کوکھلی, کٹھ پتلی اور اپنی صوبائی اختیارات کھوچکی ہے کیونکہ یہ حکومت خود خلائی مخلوق کی مرہون منت ہے۔۔
ہماری حکومت کشمیر اور فلسطین کےعوام پر”Barbarism” برداشت نہیں کرسکتی لیکن بلوچستان کے عوام پر ظلم کو دہشتگردی قرارا دے کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
لیکن ہم پوچھتے ہیں کونسی اور کیسی دہشتگردی حیات بلوچ ایک غیر سیاسی نوجوان اور یونیورسٹی کا طالب علم تھا قتل کے دوران اسکے خون سے نہلا ہوا قلم جیب سے گرا تھا نہ کہ بندوق وغیرہ ۔۔۔
آج پتا چلا کہ آخر کار قلم ہار گئی اور بندوق جیت گیا۔
اگر دہشت گرد تھا تو “Accidental Death ” کیوں کہا گیا ۔اور تو اور ایک بھی نہیں آٹھ آٹھ گولیاں ہاتھ پاوں باندھ کر اور گھسیٹ کر سینے میں پیوست کیا گیا۔
۔یہ محض ایک اتفاق ہے یا حادثہ۔
اسلیئے بلوچ کہتے ہیں کی ہمارا کوئی ملک و قانون نہیں۔ ہماری مائیں اپنے بچوں کو کن کٹھن حالات سے گذر کر پرورش کرتے ہیں انھیں لائق و قابل بنانے کیلئے اسکول و کالج بھیجتے ہیں لیکن پاکستانی ریاست یا تو انھیں اغواء کرتی ہے یا تو اس طرح تشدد کر کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کر دیتا ہے۔
شرمندگی سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچ قوم عید جیسی نعمتوں اور خوشیوں کے دن پریس کلبوں کے سامنے روتے چلاتے ہیں کہ ہمارے ورثاء کو عدالتی کاروائی کر کے ہمیں لوٹا دیں۔ لیکن اس اندھے قانون کے رکھوالوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ لیکن قوم سمجھ چکی ہے کہ حیات بلوچ کی شہادت نے ہر کسی کو انقلابی اور مذمت کی علامت بنادیا ہے۔ حیات کی خون سے انقلاب نے جنم لیا ہے۔
کیونکہ احتجاج, مذمت اور روڑوں پر نکلنا بلوچ قوم کے خون اور قسمت میں تو ویسے ہی ہے۔ آج ہر طبقہ جدوجہد کا حصہ بن چکا ہے۔ کیونکہ قوم احساس کر چکا ہے کہ حیات بلوچ کی قتل ایک نسل کی قتل کی مترادف ہے۔ جس نے پورے دنیا میں انقلاب اور مذمتی عمل کو پھر سے جنم دیا ہے۔
آج پورے ملک اور ہر گھر میں ماتم چھایا ہوا ہے۔ سب کہ دلوں میں حیات کی قاتلوں کیلئے نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ کیونکہ اب نوآبادیاتی عمل کا آخری مرحلہ ہے جب تک نو آبادیاتی تسلسل, سامرجیت اور سرمایہ داری کو جڑوں سے اکھاڑ نہیں پھینکتے اسطرح کے انسانیت سوز عمل آگے ہوتے رہینگے۔ آج بلوچ حق کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ آج بلوچ قوم کی بقاء خطرے میں ہے اور آج کے اس عہد حاضر میں بلوچ” Identity crises” سے گذر رہی ہے۔۔
تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم نے کتنے ظلم اور قتل و غارت برداشت کی ہے۔ انکا منہ توڑ جواب اور ڈٹ کر سامنا بھی کیا ہے۔اسی عہد کے ساتھ ہم آئندہ بھی اس طرح کے ظلم کے خلاف پر امن جدوجہد, سچ اور حق کی خاطر مزاحمت جاری رکھیں گے۔
شہیدحیات بلوچ کا خون بے جان اور رائیگاں نہیں جائے گا۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔