نقشوں کی جنگ
دی بلوچستان پوسٹ اداریہ
پاکستان نے اپنا نیا سرکاری نقشہ جاری کیا ہے جس میں جموں کشمیر، جوناگڑھ و ماناوڑھ اور پورے سرکریک کے علاقوں کو پاکستان میں شامل دِکھایا گیا ہے۔ بظاہر ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستانی نقشے میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاکستان 1971 تک بھارتی ریاست جوناگڑھ حتیٰ کہ حیدرآباد تک کو نقشوں میں اپنا حصہ ظاہر کرتا تھا۔ سرکریک (سندھ اور گجرات کی سرحد) کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ دعویٰ رہا ہے کہ اسکی سرحد کِریک کے مشرقی آخری حد تک ہے جبکہ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ سرحد کِریک کے بیچ میں ہے۔ اسی طرح پاکستان جموں کشمیر کو بھی نقشے میں نقطوں کی باریک لکیر کی صورت میں اپنا حصہ ظاہر کرتا رہا ہے اور اسکے اوپر لکھا جاتا “متنازعہ علاقہ” اب متنازعہ علاقے کے بجائے اس پر لکھا گیا ہے “غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں کشمیر” اور نقطوں کی باریک لکیر کو مٹاکر کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک دِکھایا گیا ہے۔ اسکا الٹا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کیونکہ انڈیا کا عرصہ دراز سے یہ موقف ہے کہ گلگت بلتستان، کشمیر ہی ہے، یعنی انڈیا کا ایک حصہ۔
گوکہ نقشے میں اس امر کا ذکر ہے کہ “نقشے کی حتمی حیثیت کا فیصلہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے قراردادوں کی روشنی میں کیجائیگی” لیکن یہ بھی پاکستان کیخلاف جاسکتا ہے کیونکہ سلامتی کونسل کی قراردیں دونوں انڈیا اور پاکستان سے پورے کشمیر سے افواج نکالنے کا کہہ چکی ہے اور سلامتی کونسل کے مطابق حق رائے دہی سے یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کشمیری پاکستان، انڈیا یا آزاد حیثیت میں رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے کبھی اپنے افواج نہیں نکالے، رائے عامہ شماری کبھی نہیں ہوئی لیکن پھر بھی پاکستان نے کشمیری عوام کے فیصلے کو جانے بغیر کشمیر کو پاکستان میں شامل کرلیا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ پرواہ صرف کشمیر کیلئے ہے، کشمیریوں کیلئے نہیں۔
دلچسپ طور پر نقشوں کی یہ جنگ محض کشمیر تک موقوف نہیں ہے بلکہ یہ پورے خطے تک پھیل چکی ہے۔ سنہ 2019 میں انڈیا کے نئے نقشے کے اجراء نے چین کو بے چین کردیا تھا۔ انڈیا کی جانب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد جس نے جموں کشمیر کی موجودہ حیثیت ختم کردی تھی اور جو دو نئے یونینوں (لداخ اور جموں کشمیر) کے قیام پر منتج ہوا تھا، اس نئے نقشے میں گلگت بلتستان کو جموں کشمیر یونین کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا، اسی طرح کچھ علاقے جن پر چین دعویٰ کرتا ہے، انہیں لداخ یونین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد چین نے بھارت سے اپنے عدم ٹکراؤ کے پالیسی پر نظر ثانی شروع کردی۔ اسکے بعد انڈو چائنا لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں ہوئے اور چین کے اتحادیوں نے بھارت کو اکسانے کیلئے نئے نقشے جاری کردیئے۔
حالیہ سال نیپال نے بھی اپنا نیا نقشہ جاری کردیا، جس میں بہت سے بھارتی علاقے شامل کیئے گئے تھے۔ نیپال ایسا قدم چین کی حمایت کے بغیر نہیں اٹھا سکتا تھا۔ دوسری طرف پاکستان ہمیشہ سے چینی پالیسیوں کی حسب توقع فوری تائید کرتی رہی ہے۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اب پاکستان نے بھارتی علاقوں کو شامل کرتے ہوئے اپنا نیا نقشہ جاری کردیا ہے۔ دلچسپ طور پر یہ نیا نقشہ چینی علاقوں میں بالکل بھی مداخلت کرتے نظر نہیں آتی۔ پاکستان اس صورتحال میں اپنی جیت دیکھتا ہے، نقشے جاری کرنے سے معروضی حقائق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن کچھ کیئے بغیر پاکستان چین اور اسکے لوگوں کو خوش رکھ سکے گا۔
یقیناً ایسے امکانات موجود ہیں کہ مستقبل بعید میں اس نقشے کے جاری کرنے سے پاکستان کو حصول کے بجائے نقصانات اٹھانا پڑیں لیکن عارضی طور پر پاکستان آرٹیکل 370 کے منسوخی کے ایک سال پورے ہونے پر یہ قدم اٹھا کر اپنے عوام کو مشغول رکھنے میں فائدہ دیکھ رہا ہے۔
اب جبکہ جوناگڑھ کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے، یہ بلوچوں کو ایک موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی تاریخ اور نقشے پر بات کریں، جس نے انہیں تین ملکوں پاکستان، ایران اور افغانستان میں بانٹ کررکھا ہوا ہے۔ جوناگڑھ کے نواب محبت خان سوم کی پاکستان سے الحاق کے کاغذات پر دستخط کرنے کے باوجود ریاست جوناگڑھ پاکستان کا حصہ نہیں بن سکا تھا کیونکہ جوناگڑھ کے عوام پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے تھے۔ منعقدہ عوامی ریفرنڈم کے دوران پاکستان سے الحاق کے حق میں محض 91 ووٹ پڑے تھے۔ بلوچ عوام نے بھی خان قلات احمد یار خان کی پاکستان سے متنازعہ الحاق کو مسترد کردیا تھا لیکن پھر بھی پاکستان نے فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بلوچستان پر قبضہ کرلیا تھا۔
جہاں تک بلوچستان کے سرحدوں کا تعلق ہے تو بلوچوں نے کبھی بھی گولڈ سمڈ لائن اور ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا، جو بلوچوں کو موجودہ افغانستان اور ایران میں بانٹتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے معاہدے پر مشکوک حالات میں افغان امیر عبدالرحمان خان اور مارٹیمر ڈیورنڈ نے دستخط کیئے تھے۔ عالمی سرحدی معاہدات میں یہ امر لازم ہوتا ہے کہ اس پر تمام فریقین کے دستخط ہوں لیکن اس معاہدے پر بلوچوں کے دستخط آج دن تک نہیں ہیں۔
پاکستان ان سرحدات کے کمزور قانونی حیثیت سے آگاہ ہے، اور اس امر سے بھی آگاہ ہے کہ یہ مصنوعی سرحدیں کیسے تاریخی قوموں اور خاندانوں کو بانٹ رہے ہیں۔ پاکستان ڈیورنڈ لائن اور گولڈ سمڈ لائن پر باڑ لگارہا ہے اور بہت سے مواقع پر مقامی لوگوں سے جبری مشقت بھی کروارہا ہے۔ پاکستان بھارتی علاقوں میں نقشے پر اپنی سرحدیں کھینچ رہا ہے لیکن یہ بھول رہا ہے کہ افغانستان بھی ڈیورنڈ لائن کو قبول نہیں کرتا۔ اسکے علاوہ بلوچ قوم پرست اور پاکستان کے پشتون قوم پرست بھی ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسی طرح بلوچ گولڈ سمڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ سندھی قوم پرست وقتاً فوقتاً سندھو دیش کا نقشہ جاری کرتے رہے ہیں۔ یہ سب نکال کر دیکھا جائے تو پاکستان صرف پنجاب رہ جاتا ہے، جسکے دو اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور بلوچ اکثریتی ہیں اور جن پر بلوچ قوم پرست دعویٰ کرتے ہیں۔