میری ماں خوف زدہ ہے – بختیار رحیم بلوچ

662

میری ماں خوف زدہ ہے

بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میری ماں بلوچستان اپنے بچوں کے قتل کے واقعات سن کر بہت خوف کا شکار ہے۔ میں جب گھر سے نکلتا ہوں، ماں مجھے آواز دیتی ہے۔ کہاں جارہے ہو؟ میں کہتا ہوں امی جان باہر کسی دوست سے مل کر آتا ہوں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باہر جانے نہیں دیتی۔ بہت منت کرتا ہوں، امی ابھی آرہا ہوں لیکن میرا ہاتھ نہیں چھوڑتی۔ جب تک میں اسے جلدی واپس آنے کا یقین نہیں دلاتا ہوں تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر جانے نہیں دیتی، اسے کسی اچھی دوست سے ملنے کا نام کہہ کر ہاتھ چھڑواتا لیتا ہوں تو مجھے چھوڑ کر جلدی آنے کو کہتی ھے۔ جب تک میں واپس نہیں آتا، میرا انتظار کرتی ہے۔ گھر واپس آ جاتا ہوں، پوچھ لیتی ہے کہاں گیا تھا؟ جس دوست کے پاس گیا تھا اسکے نام بتا دیتا ہوں. کبھی پوچھ لیتا ہوں امی اتنا پوچھ، ایک دوست سے مل کر آنے سے کیوں کرتی ہو تو وہ کہتی آج کل دوست نشے کے عادی ہوتے ہیں، مجھے ڈر لگتا ہے۔ ایسا نہ ہو آپ کوئی ایسے آدمی سے دوستی نہ کرو وہ خود نشے کا شکار ہو اور آپ بھی اسکے ساتھ اٹھ بیٹھ کر نشے کا عادی بن جاؤ۔

کھبی میں اسکے سامنے کسی سفر پر جانے کا کا کہہ کر اللہ حافظ کہنے جاتا ہوں۔ وہ میرا بستہ چھین کر کہتی ہے، بلوچستان کے شاہراہ مسافروں کیلئے بہت دلخراش اور الم ناک ہوتے ہیں، بلوچستان کے روڈوں کے واقعات، ہزاروں ماؤں کے لعل جدا کر چکی ہے، جہاں جاؤ گے پتہ نہیں کس حال میں گھر واپس آؤ گے۔ مجھے منع کرتی ہے ۔ میں جانے کا ضد کروں گڑگڑا کر روتی ہے۔

۔کتاب اٹھا کر سکول جانا کے لیے اجازت طلب کرتا ہوں بستہ چھیں کر خدا کا واسطہ دیتی ھے، سکول نہ جاؤ طالب علم ہونے سے کچھ نہیں ملتا آپ مجھ سے جدا ہوجاؤ گے، بلوچستان میں اکثر طالب علم اپنے ماؤں کے سامنے سے دور اور جدا ہیں، مائیں بچوں کا درد سہہ سہہ کر مرے جا رہے ہیں۔

۔کھبی باتوں باتوں میں اسے کہتا ہوں ،امی جان یونیورسٹی میں پڑھ کر ایک ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں ۔ وہ رونے لگ جاتی ھے ۔ میں حیران ہوکر کہتا ہوں امی جان ڈاکٹر کچھ اور نہیں ہوتا انسانوں کے بیماریوں کو علاج کرنے والے کو ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر بن کر انسانوں کا علاج کرنا، بیماروں کا ہمدرد بننا بری بات ھے؟ تو وہ مجھے کہتی ہے پتہ ھے ڈاکٹر کیا ہوتا ھے انسانوں کا علاج کرنا انسانیت بچانے کا نام ہوتا ہے لیکن دین محمد بلوچ ، اکبر مری ڈاکٹر ہی تو تھے وہ انسانوں کو علاج کرتے تھے اب اپنے ماؤں بہنوں بیٹوں کی نظروں سے دور ہیں۔انکی مائیں بہنیں بیٹیاں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوتی ہیں۔ میں نہیں چاہتی آپ میرے نظروں سے دور رہو۔

۔۔کھبی میں کہتا ہوں، امی جان دل چاہتا ھے ایک استاد بنوں، اپنے قوم کے بچوں کو پڑھاؤں ۔ تو روکر کہتی ھے میرا دل کمزور ہے آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟ میں دل برداشتہ ہو کر مرجاتی ہوں، میں اسے سمجھانے لگتا ہوں، امی استاد بن کر بچوں کو کتابیں پڑھانا ہوتا ھے۔ درس اور تدریس دینا ہوتا ہے، کوئی بندوق چلانا نہیں ہوتا تو مجھے کہتی ہے مجھےمت سمجھاو مجھے سب پتہ ہے، استاد پڑھانے والوں کو ہی کہتے ہیں ۔ رزاق جان، یوسف جان ، زرینہ مری اور بہت سے ٹیچروں کا نام لے کر کہتی ھے یہ سب ٹیچر ہی تو تھے۔ بچوں کو پڑھاتے تھے اب وہ اسی کام کی وجہ سے اپنے ماں بہن بیٹی بیوی کے نظروں سے دور ہیں۔

کھبی باتوں باتوں میں کہتا ہوں امی میں چاہتا ہوں میں ایک ایسا انسان بننا چاہتا ہوں ۔ اپنے معاشرے میں علم کو اجاگر کروں وہ ہاتھ جوڑ کر خدا کا واسطہ دے کر منع کرتی ہے۔ میں اسے سمجھا کر کہتا ہوں علم کا اجاگر کر نے والے کا کام کنویں میں چھلانک لگانا ہوتا تھوڑی ہوتا ہے، آپ رو رہی ہو اسکا کام علم کو پھیلانا ہوتا ہے، وہ کہتی ہے، مجھے پتہ ہے مت سمجھاؤ مجھے علم اجاگر کرنا کیا ہوتا ھے، زاہد آسکانی علم اجاگر کرنے والا تھا اب اپنے گھر والوں سے جدا ہے۔ خدا کے واسطے ایسی باتوں سے باز آ جاؤ۔ میں بیمار ہوجاؤں گی ۔

کھبی باتوں باتوں میں کہتا ہوں مجھے گلوکار بننے کا بہت شوق ہے، گلوکار بہت مشہور ہوتا ہے، دنیا اسکی آواز سنتی ہے۔ امی جان پھر غصے میں آ کر کہتی ھے آپ میرا جینا نہیں چاہتے ۔ میں اسے سمجاتا ہوں امی گلو کار شعر و گانا گانے والوں کو کہتے ہیں ۔ وہ مجھے شہید علی جان ثاقب اور بہت سے گلوکاروں کے بہن بیوی بچوں کا زندگی کی پریشانیاں، اداسیاں بیاں کرکے خدا کا واسطہ دے کر منع کرتی ہے۔

کھبی باتوں باتوں میں اسے کہتا ہوں پروفیسر بننے کے بہت شوق ہے ۔ امی مجھ سے ناراض ہوکر اپنے سامنے ست کھانے کو ہٹا دیتی ہے، کہتی ھے، دل سیر ہوگیا، آپ کے جاہلانہ باتوں سے۔ جب میں اسے سمجھتا ہوں امی پروفیسر کوئی ایسا کام نہیں ہوتا کہ دنیا والے برا کہیں، پروفیسر یونیورسٹی کے بچوں کے پڑھانے والوں کو کہتے ہیں ۔ پروفیسر بن کر کالجوں میں بچوں کو پڑھانا بری بات تھوڑی ھے۔ وہ مجھے کہتی ہے ہاں بری بات نہیں ہوتی، صباء دشتیاری، رزاق بلوچ، ارمان لونی اور عبدالخالق پروفیسر تھے وہ اپنی ماں، بہن، بیوی ،بچوں سے جدا نہیں ہوتے ۔ انکے مائیں تڑپ نہیں رہے ہوتے ۔ میں چپ ہوجاتا ہوں۔

کبھی میں اسے کہتا ہوں امی جان مجھے صحافی بننے کا بہت شوق ہے، مجھے کہتی ھے آپ کا سمجھانا میرے بس کی بات نہیں ۔میں جب اسے کہتا ہوں امی صحافی کے ٹو کے پہاڑ سے چھلانک لگانے کا نام نہیں ہوتا یہ لکھنے پڑھنے کا نام ہوتا ہے۔ تو وہ شہید ساجد حسین اور شہید ارشاد مستوئی کے گھر والوں کے دکھ درد بیان کرکے میرا بات ختم کر دیتی ہے۔

کبھی میں اپنے امی کو کہتا ہوں، امی جان مجھے انسانی حقوق کے لئے ایک کارکن بننا ھے۔ میرا دل چاہتا ہے، میں انسانوں کی حقوق کے خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے والا کارکن بنوں امی پوچھتی ہے سبین محمود اور راشد حسین انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے تھے ۔ وہ اب کہاں ہیں؟ میں کہتا ہوں سبیں محمود کو شہید کیا گیا ھے راشد حسین لاپتہ ھے۔ کہتی ھے میں نہیں چاہتی آپ مجھ سے دور ہو جاؤ ۔ آج آپ کسی کے لئے آواز اٹھاؤ کل آپ کے لئے کوئی اور آواز اٹھائے ۔

باتوں باتوں میں کہتا ہوں، امی میں ایک سچ گو شاعر بننا چاہتا ہوں، امی کہتی ھے آپ کب سمجھو گے؟ میں کہتا ہوں امی شاعری کرنا کیا کوئی بری بات ھے؟ وہ مجھ سے پوچھتی ھے عظیم دوست کیا تھا؟ میں کہتا ہوں شاعر۔ کہتی ہے پھر شاعری کرنے سے جالب کچھ برا تو نہیں کر رہا تھا اب وہ اپنے ماں اور بہن بیوی اور معصوم بیٹوں سے جدا ہوگیا۔ آپ پتہ نہیں کیوں اتنا نا سمجھ ہو ۔ تیرا سمجھانا میرے لیےمشکل ہے، کھبی میں وکیل بننے کی خاہش ظاہر کرکے اسے پرکھتا ہوں تو مجھے کوئٹہ کے شہید وکلاء کا نام کہہ کر ہاتھ جوڑ کر آنسو پونچھتی ہے۔

تیرہ اگست کو حیات مرزا کو اسکے والد کے سامنے روڈ پر گولیاں مار کر شہید کئے جانے کا واقعہ جب میں نے امی کو بتایا، وہ گڑ گڑا کر رونے لگی آنسو پونچھ کر بولی بلوچستان میں ہر ماں کا دل چور چور ہے۔ اسے بلوچستان کے خوف زدہ ماحول نے خوف کا شکار بنا دیا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔