موت کا المیہ
تحریر: شہسوار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“پیدائش کا لمحہ ہی موت کا لمحہ ہے” ہیگل کا یہ جُملہ اپنے اندر ایک آفاقی راست گوئی سموئے ہوئے ہے۔ کیونکہ موت تب ہی آتی ہے جب زندگی ہو۔یعنی زندگی اگر نہ ہو تو موت کی حیثیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔
مگر بلوچ راج میں بہایا جانیوالا خون کیا زندگی کے بے ڈھنگ رنگوں کو دیکھ چُکی تھی؟ کیا گفتگوء جبر سے واقف تھی؟ کیا سانس لینا شروع ہوچکا تھا؟ کیا گھپ اندھیرے میں کوئی چراغ دکھائی دیا تھا؟ کیا تختہ سیاہ پر سفید چاک بن چُکی تھی؟
نہیں ۔۔۔۔ابھی تک تو وہ زندگی کے بہاریں ہی نہیں دیکھ سکے تھے۔ دکھ اپنی جگہ سکھ کا بوجھ بھی آن نہیں پڑا تھا۔ ابھی تک وہ روشنی اور تاریکی کا تعین نہیں کرپائے تھے۔ ابھی تک گریباں اور رفو گری کے استعاروں میں مشغول تھے۔ لیکن ریاست نے انہیں مار ڈالا۔۔۔۔۔ کیوں؟
کیوںکہ وہ بلوچ تھے۔ جو غلامی برداشت کرنا نہیں جانتے۔ جو جوتے سیدھا کرنا نہیں جانتے۔ عزت و شرف کا دستار کم ظرفوں کو پہنانے کے مخالف تھے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیروں سے نفرت کرتے۔ جنہیں قتل کیا گیا۔ وہ سانس لینا نہیں جانتے، مگر غلامی کا شدت سے انہیں احساس تھا۔ تہذیب پر ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکوؤں کو عبرت کا نشان بنانا چاہتے تھے۔ دلوں کو خیرہ کرنے والے ماؤں کے آنسوؤں کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ وہ “موت کا نشان تھے وہ زندگی کی علامت تھے” وہ حیات ہے۔
حیات ایک نہیں بلکہ سرزمیں اور قوم کے نام پر قربان ہونے والا ہر فرد حیات ہے۔ حیات کا بہایا گیا لہو بے بہا نہیں۔ یہ دشمن کے سینے میں زہر کے بُجھے تیر ثابت ہونگے۔ آبِ حیات میں رکھی تلوار ثابت ہوگی۔ گوادر کا باتیل، شال کا چلتن، قلات کا شور، ثابت ہونگے۔ مجید، درویش، ریحان سے لیکر حمل تک کے حیات ثابت ہونگے۔ دلجان کا نشانہ، پھلین کا آخری تیر ثابت ہونگے۔ حیات تو حیات ہے لیکن ریاست کی موت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔