منشیات اور ہمارے آج کے نوجوان ۔ ارشد بلوچ

700

منشیات اور ہمارے آج کے نوجوان

تحریر: ارشد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کو قدرت نے ہر دولت اور معدنیات سے مالامال کیا ہے۔ جہاں اس سرزمین کے حقیقی وارث یہی نوجوان ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ اُس قوم سے ہیں، جہاں اُس قوم کے نوجوانوں کی کثیر تعداد منشیات کے عادی ہیں، اگر دیکھا جائے یہی نوجوان ہی ہمارا سرمایہ ہیں، ہمارا روشن مستقبل ہیں، جس قوم کے نوجوان نشے کے عادی ہوجائیں ۔اور وہ اپنے اچھے اور برُے کے فرق کو نہ جان سکےاور وہ اپنے آنے والی نسلوں کو سنوار نہ سکیں، تو اُس قوم کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ کبھی کبھی عجیب سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں آخرکار بلوچستان کو ہی کیوں منشیات فروشوں کا انٹرنیشنل روٹ بنایا گیا؟ کیا یہ منشیات بلوچوں کےلیے ایک جنگ کے مانند ہے؟ جو اُن پر مسلط کیا جارہاہے کیا ہماری تاریخ قومی شناخت اور ہمارے نوجوانوں کا مستقبل منشیات کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے؟ اگر ہاں تو یہ ریاست مدینہ اور اُس کے اداروں کےلئے ایک شرم کا مقام ہے جو ان منشیات فروشوں کی روک تھام میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔

حال ہی میں (این او ڈی سی) کے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی تقریبا %40 فی صد ہیروئین حشیش اور افیون بلوچستان میں سمگلنگ ہوتی ہے اور افیون کے عادی افراد کی سب سے زیادہ شرح بلوچستان میں ہے جہاں پر آبادی کا %6۰1 فی صد حصہ ہیروئن افیون میں مبتلا ہے۔

بلوچستان کے ہر ضلع، شہر اور گاؤں میں منشیات حد سے زیادہ فروخت اور استعمال ہورہی ہے اور اس کو خریدنے والے افراد نوجوان ہیں۔ جو نشے کی لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ بلوچستان میں باقی ڈویژن کی نسبت مکران ڈویژن کے دو اضلاع کیچ اور پنجگور سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ جس میں ا %70 فی صد منشیات کے لت مبتلا ہیں اور یہ ضلعی انتظامیہ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے آخر کیوں وہ منشیات فروشوں کی روک تھام میں ناکام ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں منشیات فروشوں کو ضلعی انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ بِلا خوف یہ کام کررہے ہیں اور منشیات جیسی لعنت کو ہمارے نسلوں میں پھیلا رہے ہیں۔

شاید ضلعی انتظامیہ اس لئے ان منشیات فروشوں کے سامنے بے بس ہے کیونکہ اُس کو منشیات فروشوں کی طرف سے اُس کا حصہ مل رہا ہے اور منشیات فروش جب چاہے یہ کام کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ بلوچستان کے باشعور نوجوان ان کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے۔ چاہے وہ شہید سمیع بلوچ کی شکل میں ہو یا کوئی اور شاید منشیات فروش یہ بھول چکےہیں کہ وہ شہید سمیع بلوچ کو بلوچ قوم سے جسمانی طور پر جدا کرسکتے ہیں لیکن اُس کی سوچ، اُس کے فلسفے اور نظریات اور قربانی کو ہم سے جدا نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ اُس کا کاروان ہے چلتا جائے گا اور مزاحمت کرتا جائے گا۔

آخر میں میں ایک بار پھر میں اپنے قوم کے باشعور نوجوانوں، قلم دان، طلباء تنظیموں اور قوم دوست عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ منشیات فروشوں کے خلاف آواز بلند کرکے اپنی زندہ ضمیر کا ثبوت دیں اور بلوچستان کے ضلعی انتظامیہ ہوش کے ناخن لیں اور خوابِ خرگوش سے اٹھ جائیں اور منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔