معدنیات پر قابض – سعدیہ بلوچ

568

معدنیات پر قابض

تحریر: سعدیہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے علاقے کوہ سلیمان میں گیس اور تیل نکالنے والی کمپنیوں کے آمد کی خبر گرم تھی. ان کمپنیوں کے بارے میں ہر ایک اپنے اندازے لگا رہا تھا ہر جگہ اس موضوع پر تبصرے ہوتے تھے سکولوں میں بچے ہوں یا مہمان خانوں میں مہمان یا گھروں میں عورتیں سب ان کمپنیوں کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے.

کوئی کہہ رہا تھا کہ کمپنی ہمارے لیے درمان جاہ لے آئے گی، کوئی کہہ رہا تھا کہ اب ہمارے علاقے میں پکی سڑکیں بنیں گی .کوئی کہہ رہا تھا کہ ہمارے بچے اب ترقی کریں گے، نئے سکول اور کالج کھلیں گے،علا قے کا ہر زمیندار کمپنی کو اپنی زمین دینے کے لئے پہلے سے تیار تھا، یہ کمپنی کے افسر کی مہربانی تھی کہ جس کی زمین پر قبضہ کرتا، یہ زمیندار پر اسکی خاص شفقت ہوتی تھی .

سائیں داد کو کسی بھی محفل میں کمپنی کے متعلق تعریف کرنا اچھا لگ رہا تھا جب بھی کمپنی کا نام لیا جاتا اسکی چھوٹی گول آنکھیں گھومنے لگتیں ,ناک کے نتھنے رقص کرنے لگتے اور اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فخر سے کہتا ” یہ کمپنی ہماری ہے یہ کمپنی ہماری زمینوں میں سے تیل اور گیس نکال کر ہمیں دے گی “

ایسا کہتے ہوئے سائیں داد اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیاں دکھاتا جو محنت و مشقت کی وجہ سے اونٹ کے پاؤں کی طرح سخت ہوچکے تھے، وہ اپنی ہتھیلیاں دکھانے کے بعد فاتحانہ انداز میں ہنستا, اور کہتا ,کہ اب ہمارے محنت و مشقت کے دن گزر گئے اب ہم تیل اور گیس کے مالک بن گئے ہیں اب ہم غربت اور بے روز گاری سے چھٹکارا پائیں گے اب ہمارے بچوں کو بھوک کبھی نہیں ستائے گی کبھی کبھار وہ اپنی پرانی قمیض کی طرفاشارہ کر کے کہتا ” اب ان پھٹے کپڑوں کے تھوڑے دن رہ گئے “

کبھی کبھار اس کا گلا رندھ جاتا. اور باتوں کے دوران اسکی چھوٹی کالی آنکھوں سے آنسو نکلتے تھے .ایسی حالت میں اسے اپنے جوان بیٹے اقبال کی یاد آتی تھی .اقبال اسی کمپنی کی ڈرلنگ کے دوران ایک گاڑی کے نیچے آکر مرگیا تھا ,بھاری بھرکم گاڑی کے نیچے اقبال کی آہو زاری سائیں داد کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اسے ابھی تک اقبال کے منہ سے خون بہتا دکھائی دے رہا تھا .

ہائے ! کتنا اچھا بیٹا تھا میرا وہ میرا کس قدر خیال رکھتا تھا ایک دن جب اس نے اپنی اجرت سے پچاس روپے خرچ کیے تھے ,تو میں نے اسے کتنا برا بھلا کہا تھا مگر اس نے ادب سے بات تک نہ کی نہ ہی شرم کے مارے اس نے میرے سامنے اپنی بیوی سے پیار بھرا ایک لفظ کبھی کہا اور نہ کبھی اپنے بچے کو گود میں اٹھایا, ہائے میں کتنا بد نصیب ہوں .میں کس کے سہارے جیوں اور کس کو دکھ بھری کہانیاں سناوّں. کون میرے پوتے کی پرورش کرے گا .
او اقبال ! میرے پیارے بیٹے اقبال !
میں تباہ ہوگیا ہوں اسے یاد کرنے کے بعد سائیں داد کی آنکھوں سے آنسوں سیلاب کی مانند رواں ہو جاتے . جو اسکی داڑھی کو بھگوتے ہوئے اسکے سینےتک پہنچ جاتے وہ زور زور سے روتا اور اپنا غم ہلکا کر لیتا، مگر یہ اپریل کی بارشوں کی طرح مختصر وقت کیلئے ہوتا اور فورأ ہی ناامیدی کے کالے بادلوں کے پیچھے امید کی ایک سنہری کرن سامنے آجاتی. وہ مسکرا اٹھتا, اور اس کے منہ سے یہ فقرہ نکلتا “اللہ نے چاہا تو اسی مہینے تیل اور گیس نکلنا شروع ہوجائیگی. انتہائی سادگی سے وہ دوسرے کسانوں کے سامنے اعلان کرتا کہ اللہ تعالٰی نے چاہا, تو اسی مہینے تیل اور گیس کے نکلنے پر ہمارامعیار زندگی بلند ہوگا . اس نے یہ بات کمپنی کے کام شروع کرنے کے وقت ایک سینئیر افسر سے سن رکھی تھی, اور اسی دن سے اسے اس بات پر اعتبار ہوگیا تھا .وہ یہ بھی کہتا , کہ کمپنی اصل میں ہماری زمین پر ہے .ہم کو ہی اس کا فائدہ ملے گا .میرا پوتا ایک دن اسی کمپنی میں ملازم لگے گا . اسی امید نے سائیں داد کو تمام بد نصیبیوں کے باوجود اپنے نوجوان بیٹے کی موت پر صبر کرنے میں مدد دی .بلآخر وہ دن آہی گیا تیل اور گیس نکالنے والی کمپنی کے افتتاح کا دن .علاقے والوں کےلئے مسرت کا دن .

سائیں داد نے اپنے ننھے پوتے کی آنکھوں میں سرمہ ڈالا. اپنی پرانی قینچی سے اسکے بال تراشے, اور اقبال کی شادی والی رات کی پھول دارچادر باہر نکال کر بچے کے سر پرباندھا.

پھر اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور کمپنی کی طرف چل پڑا. خدا کرے کہ مجھے دیر نہ ہوئی ہو . خدا کرے کہ انھوں نے ابھی تک افتتاح کی پٹی نہ کاٹی ہو . وہ تیز قدموں سے جارہا تھا . بچہ بہت بھاری تھا . وہ پورا رستہ ہنستا رہا, اور اپنے دادا کی بانہوں میں خوشی سے اُچھلتا رہا .وہ بچے کو باربار اس بات پر خوش کرتا اور ہنساتا کہ یہ کمپنی ہماری ہے . یہ کمپنی ہمارے باپ دادا کی زمینوں پر بنی ہے .اسکا معاوضہ ہمیں ملے گا. اس کمپنی کے مالک ہم ہی لوگ ہوں گے.

جب وہ کمپنی کے قریب پہنچے توانھوں نے کمپنی کے گیٹ پر مسلح لوگ اور پولیس کی دو قطاریں دیکھیں دور اندر سرخ اور سبز رنگ کی جھنڈیاں لہرا رہی تھیں .گاڑیوں کی ایک لمبی قطار کمپنی کی طرف جا رہی تھی.گیٹ پر اجنبی لوگ کھڑے تھے.جو باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے کارڈ چیک کررہے تھے .ہمارے علاقے کے سب لوگ گیٹ کے ایک سائیڈ پر جمع تھے. یااللہ یہ لوگ کون ہیں ؟ جن مزدوروں نے کمپنی کی بنیاد رکھنے میں کام کیا تھا ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا .نہ انکے واقف کار موجود تھے , اور نہ ہی کرین ڈرائیور…. کہیں دکھائی دے رہا تھا کمپنی کےگیٹ سےلان کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا .وہاں کوئی اور لوگ جمع تھے. شرکأ کا شور لاؤڈ اسپیکر کی آوازوں سے ملکر پہاڑوں سے ٹکرا رہا تھا .جونہی سائیں داد گیٹ کے قریب آیا .اس کو دیکھتے ہی علاقے کے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو اُمنڈ پڑے. وہ اپنے جذبات پر کنٹرول نہ کرسکے . گیٹ کے پہریداروں نے سائیں داد کو روکا. اس کے بحث مباحثے اور تکرار سے گیٹ کے انتظام میں خلل پڑ رہا تھا . ایک معمولی بلوچ آسمانی لوگوں کے کام میں دخل دے رہا تھا .گیٹ پر موجود پہرےداروں کا پیمانہ ، صبر لبریز ہو گیا .اور انھوں نے ایک پولیس والے کو اشارہ کیا .پستہ قد کا ایک کالا پولیس والاسائیں داد کی طرف بڑھا اوراسے زور کا تھپڑ مارا. کہ اس کی پگڑی ایک گز دور جا گری . ایک دوسرے پولیس والے نے اسکی پشت پر ٹھوکر ماردی. اور سائینداد منہ کے بل جا گرا اسکا پوتا زمین پر گر پڑا. اور اسکے منہ سے ایک دردناک چیخ نکلی.علاقے کے تمام غریب لوگ حیران و پریشان کھڑے تھے .اور آنسوؤں کی وجہ انھیں سب دھندلا دکھائی دے رہا تھا .

دور کار پارک کے پیچھے شور اٹھا.کچھ بلوچ سٹوڈنٹس سڑک کی طرف دوڑے آئے انھوں نے سائیں داد اور اسکے پوتے کو اٹھا لیا, اور انھیں پولیس پارٹی سے دور لے گئے .تماشائی جو تقریب دیکھنے درختوں پر چڑھ دوڑے تھے .نیچےاتر کر سائیں داد کے گرد جمع ہو گئے ایک نوجوان علی نے لوگوں کا گھیرا توڑتے ہوئے مغرور انداز میں کہا “خاموش ہو جاؤ ,ہٹ جاؤ .اے نادان بڈھے ! تم ہمیشہ سے سادہ لوح مزدوروں اور ہمارے کسانوں کو دھوکہ دیتے رہے ہو کہ یہ کمپنی تمہاری ہے اب تمہیں سمجھ آگئی ,نا کہ یہ کمپنی کس کی ہے. اور اگر تمہیں شک ہے, تو ایک بار پھر وہاں جاؤ ,وہ تمہیں پوری طرح سمجھا دیں گے . سائیں داد نے سر اٹھایا. اوراپنے سامنے بے پر واہ اور منہ پھٹ علی کو دیکھا اس نے قمیض نہیں پہن رکھی تھی, شلوار پر بہت سارے پیوند لگے ہوئے تھے گردن کے گرد مفلر لپیٹ رکھا تھا , آنکھیں چھوٹی اور بازو فولاد جیسے تھے .

سائیں داد نے فوراً اس بہادر اور باغی کو پہچان لیا .اور رندھی ہوئی آواز میں پہلی دفعہ تسلیم کیا, کہ نوجوان تم ٹھیک کہتے تھے ,میں غلط تھا علی نے اپنے جیب سے رومال نکال کر سائیں داد کے منہ پر لگی مٹی کو صاف کیا اور بولا کہ سائیں داد مجھ سے وعدہ کرو کہ آئندہ بلوچوں کو گمراہ نہیں کرو گے, سائیں داد نے کہا, میں وعدہ کرتا ہوں میں سمجھ گیا ہوں , کہ یہ تیل, گیس, معدنیات جو ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے کوہ سلیمان کے ان پہاڑوں کے نیچے چھپایا ہوا تھا,جن کی افادیت کا ان کو معلوم تھا,اب شاید آج کے بعد ہمارے نہیں رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔