محبت – محمد خان داؤد

128

محبت

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سقراط نے کہا کہ مینڈک بہت ہی بدصورت ہوتا ہے، وہ پورا دن مٹی کے نیچے یا پانی کے تالاب میں ٹاں ٹاں ٹاں کرتا رہتا ہے، تالاب کے مینڈک، یا کوئیں کے مینڈک سے پوچھا جائے کہ دنیا کی سب سے خوبصورت شے کیا ہے؟!

تو وہ مینڈک بلاجھجک کہے گا کہ میری مادہ۔

پر مادہ بھی اچھی کب لگتی ہے؟

جب انسان یا حشرت الارض میں بالغ پن نمودار ہونے لگے، وہ بالغ ہوجائیں

دنیا کی ساری خوبصورتی بالغ نظری میں ہے، جب تک وہ بالغ نہیں تو اسے دنیا کا کوئی بھی رنگ یا خوشبو حسین نظر نہیں آئینگے، بچہ ویسے تو خوشبو میں نہا سکتا ہے، وہ اپنے ہاتھوں سے رنگوں سے کھیل سکتا ہے، وہ اپنے پیروں سے تتلیوں کے پیچھے بھاگ سکتا ہے۔ پر وہ کچھ بھی نہیں جانتا کہ خوشبو، رنگ، اور تتلیاں خوبصورت کیوں ہیں؟

جب وہ بالغ ہو جائیگا اور اس دانے کے قریب جائیگا جو دانا آدم نے چھکا

تو کسی خوبصورت حوا کے

نرم گرم سانسوں کی مہک

لبوں کی حسین مسکراہٹ اور سرخی

کمر کے عجیب و غریب شاہرائیں

پستانوں سے بہتا خوشبودار پسینہ

سیاہ زلفیں اور ان سیاہ زلفوں پہ سفیدی میں نہاتا ہوا روشن چہرہ!

جس کے لیے لطیف نے کہا کہ

،،میں نے اپنے محبوب کے جلوے میں

دن اور رات کو ابھرتے اور ڈھلتے دیکھا

جب میرے محبوب کے روشن چہرے پہ سیاہ زلفیں بکھر جاتی ہیں تو رات کا سماں ہوجاتا ہے

اور جب ان سیاہ زلفوں سے روشن چہرہ نمودار ہونے لگتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ دن ابھر رہا ہے!،،

ایسی گھڑی کو،،پربھات کہتے ہیں!،،

معصوم سے نین

کومل سے ہاتھ

سمندر کے ساحل جیسی آنکھیں جن آنکھوں میں دل تو کیا پورے کا پوراانسان ڈوب جائے

مندر کے مورتی جیسی ناک

تیر جیسے ابرو

شہد کہ رخسار

انار کے جیسے دانت

مورنی جیسی گردن

محبت کے پسینے میں ڈوبے پستان

جن پستانوں کے لیے اوشو نے کہا تھا کہ

،،پستان محبت کا مرکز ہے!،

جن کے لمس سے انسان پر ایسی کیفیت طاری ہو تی ہے، جس کے لیے اوشو نے کہا تھا کہ

،،پھر سواری کی حاجت نہیں رہتی اور انسان منزلیں طے کرنے لگتا ہے!،،

وہ دل کش پیر

جن پیروں کی آہٹ سن کر ایاز اپنے گیتوں میں ایسے الفاظ لکھا کرتا تھا کہ

،،پدمنیوں

کامنیوں!،،

پر ایسی محبت بھری کیفیت انسان پر کب طاری ہو تی ہے جس میں وہ اُڑنے لگتا ہے اور باقی سب چیزیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں جب مینڈک کو بھی اپنی مادہ دنیا کی سب چیزوں سے حسین تر معلوم ہوتی ہے۔

جب جب انسان پر بالغ پن سوار ہوتا ہے اور اس کے پسینے کی بدبو مہک میں تبدیل ہونے لگتی ہے اور اسے دنیا کے رنگ بھلے محسوس ہونے لگتے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے پستانوں سے بہتے پسینے کو دیکھے اور انہیں چھوئے اور ساری حاجتیں ختم ہوں اور وہ بغر سواری کے سب منزلیں طے کر جائے۔

جب وہ محبت میں بستا ہے۔ محبت میں رہتا ہے۔ محبت میں سوتا ہے۔ محبت میں سوچتا ہے

تب وہ محبت کے مندر کا ہی ہوکر رہ جاتا ہے

اور محبت کے مندر کی مو رتی وہ حسین لڑکی ہوتی ہے جو اس کی مادہ ہوتی ہے

جو اس کے خوابوں کی رانی ہو تی ہے!

جیسا زندہ رہنا ہی زندگی ہے، باقی اس کے سارے کام،عمل زندگی کا کچھ دوسرا پہلو تو ہو سکتے ہیں پر وہ زندگی نہیں ہو تے اسی طرح محبت سیاہ زلفوں سے شروع ہوکر، چاند سے چہرے، گلابی ہونٹ، پسینے سے بھرے پستانوں کی مہک، دل کی دھڑکن کا تیز ہوجانا، اور ان سرخ ہونٹوں سے کسی کا نام بار بار پکارنا، اور پھر کسی کی بہانوں میں سما جانا محبت ہے۔ باقی محبت کے کام اور عمل تو ہوسکتے ہیں پر محبت نہیں۔

محبت میں بہانیں سُکڑتی نہیں، محبت میں تو بانہیں پھیل جاتی ہیں اور محبوب کے طفیل ان بانہوں میں ساری دنیا سمٹ جاتی ہے اور وہ محبت بس مادہ سے کی جاتی ہے۔

جو محبت مادا سے نہیں

وہ محبت نہیں

وہ عزت ہے، احترام ہے!

اور جب ویران، ریت جیسے صحرا سے بھرے دل پر محبت کے بادل برس جائیں تو پھر اس دل پہ زندگی کسی کنبی کی طرح اُگ آتی ہے!

محبت کے بغیرموت تمہیں ہستی کی چابیاں نہیں دیتی

محبت آزادی ہے

محبت ایک حقیقی وجود کے سائے کی طرح ہے

صرف محبت ہی بھگوان ہے

محبت بازار کی دنیا سے ماورہ ہوتی ہے یہ کاروبار نہیں

خود کو محبت میں منقلب ہوتا سوچو

محبت نا نظر آنے والا رشتہ ہے!

ہم محبت کے سمندر میں جی رہے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں

تم محبت کرو اس کے بغیر زندگی بسر نہیں ہوتی

محبت جسموں کی خوشبو ہے!

محبت عشق کا مراقبہ ہے

محبت بس محبت ہوتی ہے محبت میں کوئی مقصد نہیں ہوتا

جس محبت میں مقصد ہو وہ محبت نہیں ہوتی

محبت کا مطلب ہے ہونے کی آسانی

،،بوسہ لینے کی آسانی

محبت میں مزدو ری کرنے اور پسنہ بہانے کی آسانی

رس بھرے ہونٹ چوسنے کی آسانی

رس بھرے پستانوں سے پسینہ چوسنے کی آسانی

سیاہ زلفوں کو سنوارنے کی آسانی

اور محبت سے محبت میں مل کر ایک ہو جانے کی آسانی!،،

محبت، محبوب بننے کی تعلیم ہے

محبت کسی کیفیت کا نام نہیں یہ تو ایک ساز ہے جو من میں بجتا ہی رہتا ہے

محبت صحیفہ ہے جو دل پہ اترتا ہے

محبت انسان میں جنت کو دیکھنے کا نام ہے

محبت وجود کی آنکھیں ہے

محبت ان جانے جسموں کی شناسائی ہے

میں اسی کئی بار کہہ چکا ہوں مجھے اس سے محبت ہے، پر وہ کہتی ہے میری عزت کرو

وہ کیوں نہیں سمجھ پاتی کہ جس دل میں محبت کا جنم ہو اس دل میں عزت کا جنم نہیں ہوتا

عزت محبت نہیں ہو تی اور محبت عزت نہیں ہو تی

وہ مجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ خوبصورت لگتی ہے وہ مجھے بہت پیا ری ہے وہ بہت خوبصورت ہے کیوںکہ وہ مادا ہے اور میں بالغ

کاش کہ وہ جان پائے مجھے اسے سے محبت ہے!


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔