لب بستگی میں حیات ؟ – خالدہ بلوچ

301

لب بستگی میں حیات ؟

تحریر: خالدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے کسی بھی قوم کی پس منظر، تاریخ پر غوروفکر کے بعد یہی علوم سامنے آتے ہیں کہ ظلم کرنے والے عناصر اپنے طاقت کے بل بوتے پر استعماریت کو برقرار رکھنے کی بھرپور کاوشیں کرتی ہیں، ہرطرح کے حربے استعمال کرتے ہیں اور مظلوم عوام کو پاوں تلے روندنے کی جدوجہد مظالم کی شکل رواں رہتی ہے۔ یعنی وہ اپنی بالادستی دائم برقرار رکھنے کے مقصد سے ہرطرح کا ظلم ڈھاتے ہیں اور اس ظلم کے خلاف کسی آواز کو فضا میں گونجنے بھی نہیں دیتے۔ جب تک وہ مظلوم عوام کی آواز دبانے میں کامیاب ہیں تب تک ان کی حاکمیت زندہ ہے ورنہ اس کے برعکس ان کے راج کرنے کے خوابوں کی تعبیر زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی غرض سے مظلوم عوام کو پسماندہ رکھنا، تعلیم سے محروم رکھنا، بنیادی ضروریات ، سہولیات سے محروم رکھنا، اپنے خلاف عوامل میں ملوث گروہوں میں انتشار پھیلانا، اُن کی سوچ کو محدود رکھنا اِس قدر کہ سوچ کی چڑیا اپنے پر پھڑپھڑا نہ سکے اور سب سے بڑی طاقت لوگوں پر خوف طاری کردینا ہے جبکہ اس خوف کی انتہاء ان کی جانب سے دی جانے والی مختلف بےدرد سزائیں ہوتی ہیں، یہی خوف اگر مظلوم قوم کے دلوں میں سما جائے تو اُن کی بقاء پر سوال اٹھ سکتا ہے۔

ایسے حالات میں مظلوم عوام کی بقاء شعوری و فکری حوالے سے مضبوط لوگوں پر انحصار کرتی ہے جو ان تمامتر زیادتیوں کی بنیادوں پر تجزیہ کرتی ہیں ، انکی جڑوں سے، مقاصد و عزائم سے ، غلیظ قاتلانہ ارادوں سے روشناس ہونے کے بعد زمینی حقائق کی اپنے مخلوق میں پرچار کرکے ظلم کے خلاف آواز و اقدام اٹھانے پر اُنہیں تقویت بخشتی ہیں، جو ان کا بنیادی حق ہے ۔یوں حاکم و مظلوم کے بیچ جنگ پروان چڑھنا شروع ہوتی ہے ، جنگ حاکم کا مظلوم کی آواز کو دبانے کی ، جنگ مظلوم کا ظلم کی شمع بجھانے کی۔

ایک حقیقت کہ کوئی سچائی ، راست گوئی یا ماہیت جو ریاست کے خلاف ہو ، فوج کے خلاف ہو، اسے اپنی زبان پر لانے سے قبل ہزار لوگ آپ کو روکیں گے کہ خبردار یہ صداقت جو تم اپنی لبوں پر لانا چاہتے ہو ایک بڑی طاقت کے خلاف ہے، اسے سات پردوں میں دفن رکھوگے تو زندہ رہوگے، مگر جس دن اظہار کیا وہ طاقت جھٹ تمھیں موت کے حوالے کردے گی۔ موت یا تشدد کے نام پر دی ہوئی یہی خوف ایک ہجوم میں خاموشی برپا کردیتی ہے، نادان و سادہ لوح ذی روح حقیقتاً یہی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ واقعی جب تک اپنے ہی قوم کے مگر دوسرے مخلوق کے ساتھ ہونے والے ظلم پر لب بستگی رہے گی، تب تک ہم حیات ہی رہیں گے ، یقیناً یہ بہت ہی غیردانشورانہ خیال ہے، جو بربریت پسندوں میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہے۔ مظلومیت محض ایک سزا ہے، تکلیف ہے، ظلم ہے۔ اس کے خلاف جو بھی آواز اٹھے گی بلاشبہ موت اس پر برحق ہے۔ بربریت کے خلاف جدوجہد میں شامل عامل بذاتِ خود جانتا ہوتا ہے کہ اب میں بول رہا ہوں تو بےشک موت کا پرندہ بھی میرے سنگ اڑ رہی ہوگی ۔ ہاں مگر لب بستگی میں زندگی ڈھونڈنا شاید احمقانہ تصور ہے۔

مظلومیت کی حالت میں عوام کی موت ریاست کے ہاتھوں اجتماعی طور پر بطورِ سزا ہوتی ہے، اُنہیں کچلنے کے مقصد سے ہوتی ہے ۔ اِس کے لئے ظلم کے خلاف خاموش رہنا، بےگناہ و بے قصور ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ آپ کی موت ایک سازش کے تحت ہوتی ہے جس کے تحت آپ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ٹارگٹ تصور ہوتے ہیں ۔

بالخصوص بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ رواں ظلم و جبر اسی سازش کی عکاسی کرتی ہے۔ کیا قصور تھا شہید ملکناز کا جو بےدردی سے قتل کئے گئے؟ ان کے بےگناہ قتل ہونے پر جب ہم آواز اٹھاتے ہیں ، انصاف مانگتے ہیں ، پھر بجائے اس کے کہ انصاف ملے، اُس کے متبادل ہمیں ایک اور لاش تھما دی جاتی ہے شہید کلثوم بلوچ کی، وہ بدفعلی جس کے خلاف ابھی ہم سراپا احتجاج ہیں ایک بار پھر دہرا دی جاتی ہے، کیا قصور تھا کلثوم بلوچ کا ؟ اور کیا قصور تھا شہید حیات کا؟ اِن تمام مظلوموں کی زندگی کا پورا جائزہ لیں ، پوری طرح سے بےگناہ ، بےقصور نکلیں گے ۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ پھر یہ کیوں اس ظلم کی آگ میں جلے؟ انہیں تو زندہ رہنا چاہیئے تھا ، حیات ہونا چاہیے تھا چونکہ انہوں نے تو کسی کے خلاف آواز نہیں اٹھایا، وہ تو خاموش رہے تھے ، اپنی زندگی جی رہے تھے ۔ اگر خاموش رہنے میں حیاتی ہے پھر بےگناہ لوگ کیوں قتل ہوئے جارہے ہیں ؟ اگر بےقصور ہونے میں ہی حیاتی ہے پھر بچے کیوں اِس آگ کی لپیٹ میں جل رہے ہیں؟

بے گناہ لوگوں کی مسلسل تشدد بھری موت ایک واضح پیغام دے رہی ہے کہ بھلے ہی تم خاموش ہو ، بےقصور ہو ، مگر اس ظلم کی لپیٹ سے باہر نہيں ہو ۔ آنکھوں دیکھے یہ مظالم عقلمندوں کے لئے کافی ہیں، وہ کربلا جیسی ہزاروں اور واقعات جو کیمرے کی آنکھ سے بچ گئے رہنے دیں۔

ظلم، ظلم ہی ہے، چاہے مقامی ہو، قبائلی ہو یا کہ قومی ، اس کے خلاف آواز اٹھانا، مستقل مزاجی اور بہادری سے سامنا کرنا، جدوجہد کرنا ہی اُس کا زوال ہوسکتا ہے۔ اُس کے خلاف خاموش رہنے پر ہم خود اپنے آپ پر ایک اور ظلم کر بیٹھتے ہیں۔ دونوں صورتوں اگر زندگی گوانا ہی ہو تو بہادری کے ساتھ گوانا کیا؟ خوب بہتر کہ ضمیر زندہ رہے مطمئن رہے اور ٹپکتی لہوں چار اوروں کے لئے باعثِ حوصلہ۔

طلبِ انصاف انہیں قوتوں سے جو ہمیں دبائے رکھتے ہیں مضحکہ خیز ہیں۔ انصاف ملے یا نہ ملے مگر آواز ہمیشہ بلند رکھیں تاکہ عوام میں شعور بیدار ہو، سوالات اٹھیں، ان کے جوابات کی تلاشی ہو، حقائق سامنے آئیں۔ ضرورت ہمیشہ بیداد گر کی پالیسیوں کو سمجھنے پرکھنے کی ہوتی ہے، انہیں اپنے مخلوق تک پہنچانے کی ہوتی ہے تاکہ لفظ ظلم کے خلاف جہد مسلسل رواں رہے مضبوط رہے اور یقیناً ایک دن یہ کوششیں ، جدوجہد ، قربانیاں ، خواریاں آنے والی نسل کو مستقل انصاف فراہم کرینگی ۔ خوشحال زندگی فراہم کرینگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔