لبنان سیاسی عدم استحکام کا شکار، مظاہرین کا وزارت خارجہ کی عمارت پر قبضہ

181

 بیروت میں دھماکے کے بعد لبنان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگیا، ہزاروں شہریوں کا حکومت کیخلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، مشتعل افراد نے وزارت خارجہ کی عمارت پر قبضہ کر لیا، کئی افراد نے وزارت توانائی کی عمارت کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا، جھڑپوں کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا، شہریوں نے بندرگاہ پر دھماکے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کردی۔

تفصیلات کے مطابق بیروت دھماکے نے لبنان کی سیاسی بنیادیں ہلا دیں، عوام نے حکمرانوں کو دھماکے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔

بیروت میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، وزارت خارجہ کی عمارت پر قبضہ کرکے اسے انقلاب کا مرکز قرار دے دیا، متعدد سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی گئی، مشتعل افراد کے حملے میں پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گیا۔

پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش فورسز نے ناکام بنادی، مشتعل افراد کو منتشر کرنے کے لئے فورسز نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔ مظاہرین نے بینکس ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوارٹرز پر بھی دھاوا بول کر ایک حصے کو آگ لگادی، فورسز اور شہریوں کے درمیان تصادم میں سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

دھماکے سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے جب دو وزرا موقع پر پہنچے تو لوگوں نے انھیں وہاں سے بھگا دیا۔ اس دھماکے میں تقریباً چھ ہزارافراد زخمی ہوئے ہیں اور تازہ اعدادو شمار کے مطابق 30 تیس ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

مظاہروں میں شامل 28 سالہ انسانی حقوق کے کارکن فارس حلابی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ تین روز تک ملبہ ہٹانے اور اپنے زخموں پر مرہم لگانے کے بعد اب ہمارا غصہ پھٹنے کو ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قصور واروں کو سزا دی جائے۔

لبنان کے وزیر اعظم نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کردیا ہے، وزیر اعظم حسن دیاب کا کہنا ہے کہ بحران سے نکلنے کا واحد حل قبل از وقت انتخابات ہیں۔

انہوں نے پیر کے روز کابینہ میں الیکشن کی تجویز پیش کرنے کا اعلان کردیا ۔

لبنان کے صدر میشال نعیم عون نے بیروت میں ہونے والے دھماکے میں غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکا بندرگاہ پر میزائل یا بم سے کیا گیا حملہ بھی ہوسکتا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر میشال نعیم عون نے بندرگاہ میں امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں خوفناک دھماکے پر کسی بھی عالمی ادارے سے تحقیقات کرانے کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکے کی دو بنیادی وجہ ہوسکتی ہیں یا تو حکام کی جانب سے غفلت برتی گئی یا پھر بیرون ملک سے حملہ کیا گیا ہو۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے لبنانی صدر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ملک کا موجودہ نظام مفلوج ہوچکا ہے جس کی وجہ سے جلد فیصلے اور ان پر فوری عمل درآمد کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لیے اس بوسیدہ نظام پر نظر ثانی ہونی چاہیئے۔ ہماری حکومت سسٹم میں اتفاق رائے کے ساتھ مثبت تبدیلیاں لا رہی ہے۔

صدر میشال عون نے عوام سے شفاف اور سبک رفتار انصاف کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے نظام کو بہتر کررہے ہیں اور اسی نظام سے اپنے لوگوں کو انصاف دلائیں گے اس لیے دھماکے پر عالمی تحقیقات کا جواز برقرار نہیں رہتا، غیرملکی اداروں سے تحقیقات کی ضد سچائی کو کمزور کرنے کی کوشش ہوگی۔