لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کی مسلح جدوجہد کے ساتھ منسلک ہے – ڈاکٹر مالک بلوچ

648

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے عالمی خبررساں ادارے انڈیپنڈنٹ اردو کے کوئٹہ کے نمائندے ہزار خان بلوچ  کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کی مسلح جدوجہد کے ساتھ منسلک ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو یہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کوئی واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو دو آدمی چھوڑ دیے جاتے ہیں اور دس کو اٹھالیا جاتا ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کی بنیاد یہ ہے کہ جاکر مذاکرات کریں۔ اب بھی ہماری پارٹی کی یہی خواہش ہے۔

 انہوں نے کہا کہ دنیا میں انسرجنسی کو ڈیل کرنے کے اور گوریلا جنگ ڈیل کرنے کے لیے دو سٹریٹجیز ہیں۔ ایک تامل سٹریٹجی جو مکمل تباہ کاری ختم کرنا ہے، دوسری آئرش سٹریٹجی ہے،اب بلوچستان جافنا تو نہیں ہے، وہ تو ایک چھوٹی سی جگہ تھی، سارا جنگل تھا، یہاں تو ایک پہاڑی کے اندر کوئی چھپ جاتا ہے توآپ کواس کو ڈھونڈنےمیں دس سال لگ جاتے ہیں، آج بھی ہماری رائے ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوگا جتنی بھی کوششیں کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کراچی پریس کلب میں کہا تھا سب کو یاد ہوگا کہ میں بہ حیثیت وزیراعلیٰ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوگیا ہوں۔ اس لیے کہ یہ امن سے منسلک ہے، جب تک بلوچستان میں امن نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا،جو بھی کہے گا پوائنٹ سکورنگ کرے گا، وہ عوام کے ساتھ زیادتی کررہا ہوگا،میری ذاتی رائے اور تجربہ یہی کہتا ہے کہ جب تک مذاکرات نہ ہوں بلوچستان میں انسرجنسی ختم نہ ہو تب تک یہ چلے گا ۔

اپنے دور حکومت میں مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا یہاں پر تو دو مائنڈ سیٹ تھے، ایک یہ تھا کہ مذاکرات کیے جائیں دوسرا تھا کہ نہیں کیے جائیں۔ یہ مائنڈ سیٹ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں میں تھا۔ لیکن اس وقت جو سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کی قیادت تھی۔ انہوں نے کہا آپ جائیں اور مذاکرات کریں، اس میٹنگ میں بڑے ذمہ دار لوگ موجود تھے۔ جن کا نام لینا یہاں مناسب نہیں ہے۔ یعنی ٹاپ کی سیاسی قیادت اور ٹاپ کی عسکری قیادت موجود تھی۔ میں نے کوشش کی۔

نیشنل پارٹی کے سربراہ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مشکور ہوں نوابزادہ براہمدغ بگٹی ( نواب اکبر خان بگٹی کے نواسے جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ) کا، جنہوں مجھےعزت دی اور مجھ سے بات کی،میں نے ان سے کہا تھا کہ نوابزادہ صاحب میں طاقتور آدمی نہیں ہوں، میں صرف  آپ کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان برجنگ (بریجنگ) کرسکتا ہوں۔ اور آپ نے جو کچھ کہنا ہے۔ ان کے سامنے کہنا ہے۔ انہوں نے کہا ‘یس۔’  میں پھر چلا آیا اور میں نے رپورٹ کی۔ پھر ہم نے ایک ٹیم بنائی اس ٹیم میں، میں اور جنرل (ر ) عبدالقادر بلوچ شامل تھے۔ ہم گئے اور دو دن مذاکرات کیے اور نوابزادہ براہمدغ  بگٹی نے ہمیں بہت عزت دی اس بات کے جنرل ( ر ) قادر بلوچ گواہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ان (براہمداغ بگٹی)  کے ایسے اجتماعی مطالبات تھے کہ علاقے میں سکول ،ہسپتال اور بجلی ،پانی جس کو میں بہ حیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان بھی حل کرسکتا تھا لیکن اس باب کو اس طرح بند کیا گیا۔ جو مجھے بھی آج تک پتہ نہیں ہے،جب  ہمارے درمیان معاہدے کے بعد میں نے وزارت اعلیٰ چھوڑی تو میں نے دو تین دفعہ ذمہ دار عسکری قیادت کو اور سیاسی قیادت کو کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں بھیجا اور ہماری کچھ بلوچی روایات ہیں، اس لیے لوگ آپ پر بھروسہ نہیں  کرتے ہیں۔ آپ نے مجھے بھیجا اور اب آپ لوگوں نے اس کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا  سمجھتا ہوں کہ یہ بدقسمتی ہے کہ جو سٹریٹجی اس وقت چل رہی ہے، جو تامل سٹریٹجی ہے۔ یہ بڑی بد قسمتی ہے۔ اگر یہ مذاکرات ہوجاتے کیونکہ ہم نے ایک جرگہ  خان آف قلات سلیمان داؤد کے پاس بھیجا اورمیں خود بھی وہاں گیا تھا تو خان آف قلات خان سلیمان داؤد  نے بھی جو جرگہ ان کے پاس گیا تھا۔ جس میں سردار کمال خان بنگلزئی ،نواب محمد خان شاہوانی ،میر کبیر محمد شہی اورمیرخالد لانگو شامل تھے۔ جنہوں نے خان آف قلات سے ملاقات کی تھی،جس کے بعد اب یہ ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے کسی کوایسا کچھ نہیں کہا کیونکہ عسکری اور سیاسی قیادت کی جو کمٹمنٹ تھی۔ اس کو وہ آگے لے کر نہیں گئے۔

یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ ورنہ بلوچستان میں اس وقت مکمل امن قائم  ہوچکا ہوتا ۔