قینچی اور کولیٹا
تحریر : برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
ارنسٹ ہمینگوے کا لکھا ایک افسانہ ” ناقابلِ تسخیر ” پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ افسانہ ہسپانوی ” بُل فائٹرز” کی زندگیوں کے گرد گومتی ہے۔ اس میں ہمینگوے منظر کشی کرتا ہے کہ کیسے بدمست بھینسوں سے گرم خون نوجوان لڑتے انہیں زیر کرتے ہیں، اور کیسے ان لڑائیوں میں نوجوان خود کبھی مرتے اور کبھی اتنے زخمی ہوجاتے ہیں کہ پھر لڑائی کے قابل نہیں رہتے۔ وہ ان تھکے ہوئے “بُل فائٹروں” کا بھی نقشہ کھینچتا ہے، جن میں سے کچھ بل فائیٹنگ کا پیشہ چھوڑ کر مقامی اخباروں میں ناقد کی نوکری اختیار کرتے ہیں اور مجمعے میں تھکے ہوئے بیٹھ کر، شمپیئن کی گرم بوتل سے گھونٹ لگاتے ہوئے لڑائی دیکھتے ہوئے بس یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہاں کیا غلطی کررہا ہے اور پھر اس پر ایک تنقیدی مضمون اگلے دن کے اخبار میں چھاپتے ہیں۔ جب کسی “بل فائیٹر” کے جسم میں بھینسے کا سینگ لڑتے ہوئے اتر جائے تو ان “سینئر” تھکے ہوئے “بل فائٹروں” کی چاندی ہوجاتی ہے، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ نوجوان کی نا اہلی کے بابت انکی پیشن گوئی درست ثابت ہوگئی، پھر وہ جلدی سے قینچی اٹھاکر اس بل فائٹر کا “کولیٹا ” کاٹنے پہنچ جاتے ہیں۔ ( کولیٹا بل فائٹروں کے بالوں کی ایک مخصوص چوٹی ہوتی ہے، ریٹائر ہوتے وقت جسے وہ کاٹ دیتے ہیں)
بلوچ قومی جنگ آزادی کے حالیہ پیش رفتوں میں بلوچ نوجوانوں خاص طور پر فدائین کے تاریخ ساز کردار کو دیکھنے کے بعد جس طرح بلوچ تحریک کے تھکے ہوئے بُل فائٹر اپنے مزاحقہ خیز بیانیوں کی قینچی سے بلوچ نوجوانوں کا کولیٹا کاٹنے کی کوشش کررہے ہیں یہ اگر شرم انگیز نہیں تو عبرت کی ایک مثال ضرور ہے۔
یہ معمہ سلجھ نہیں پارہا کہ اتنے نادان ہیں کہ سادہ زمینی حالات کے تقاضوں تک کو سمجھنے سے نالاں ہیں، یا یہ کوئی ایسی ذہنی کیفیت ہے کہ سب جان کر بھی ناماننے کے خبط سے نکل نہیں پاتے۔ جب سب کچھ دسترس میں تھا، پوری قوت، نوجوانوں کے جذبات، لگن و محنت کا خام مال ہاتھ میں تھا تو ہاتھوں پر ہاتھ رکھے ہلنے کی حجت نہیں کی اور ہر واجب ضرورت تک کو ہمالیہ سمجھ کر ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے بے بسی دِکھاتے رہے اور جب وہی ہمالیہ یہ نوجوان انہی کے آنکھوں کے سامنے سَر کررہے ہیں تو اب ہضم کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے اور بال کی کھال اتارنے پر ایسے تُلے نظر آتے ہیں کہ جہاں کیڑے نا بھی ہوں تو خود ہی ڈال کر نکالتے ہوئے دِکھاتے پھرتے ہیں۔
اس جنگ کا بار اتنا گراں ہے اور اسے اتنا دور لیجانا ہے کہ جو شب و روز متحرک ہے وہ بھی خود سے یہ سوال کیئے بنا نہیں رہ سکتا کہ جتنا میں اٹھا کر چل رہا ہوں کیا یہ کافی ہے یا میں اپنے طاقت و حجت سے کم پر اکتفاء کرکے آگے بڑھ کر کوتاہی کا مرتکب ہورہا ہوں، یہ جو ایک جان دے رہا ہوں، میری ایک موت وطن کیلئے کافی نہیں میں کیسے اسے پچاس اموات کے برابر کرلوں، اب ایسے عالم میں کوئی آکر اپنے دو دہائیوں قبل کے چار کرم گنوائے، باپ داد کا نام بتائے پھر بندہ بیٹھ کر اپنا سر پیٹے یا اسکا؟ ایمانداری سے کہا جائے تو خاک وطن کا قرض چکانے کی خاطر ابھی تک ہم نے خاک بھی نہیں کیا ہے۔ باتوں، دلیلوں، گرم بحث و مباحثوں، تجزیوں و تبصروں میں ویسے ہم تمام نامی گرامی انقلابیوں سے پانچ گز آگے ہیں عملاً سوچ و زاویہ نظر، علم و شعور اور قربانی کی اس سطح پر کھڑے ہیں، جہاں سے انقلاب اور انقلابی تحریکوں کی شروعات بھی نہیں ہوتی ہے۔ اگر حقیقت پسند بن جائیں تو ابھی تک صحیح معنوں میں آزادی کے کماحقہ قربانیوں کا سلسلہ شروع تک نہیں ہوا ہے، پھر حساب کتاب، اعداد و شمار کس بات کی؟ ابھی تک وہ مقام، وہ منزل بہت دور ہے، ہمیں بہت کرنا پڑے گا، کھونا پڑے گا، سہنا پڑے گا، تب جاکر ہم نہیں، ہمارے چند نادان و جذباتی چاہنے والے نہیں بلکہ یہ فیصلہ آنے والی نسلیں و مورخ کریگا کہ ہم نے گل گلزار چمن کی خوبصورتی کے لیے کیا گل کھلایا ہے؟ یہ وطن، یہ قوم، یہ قومی نجات کی جنگ کا بوجھ اتنا آسان نہیں، کاش آسان ہوتا اپنے کندھے پر رکھ کر ادھر سے اٹھاکر ادھر رکھنا ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے، جب تک سانسوں میں سانس ہے رکنے کی حجت ہی نہیں آتی ہے، جب ایک بار انسان یہ بوجھ رکھ دے، پھر لاکھ دفعہ ماضی میں بوجھ اٹھانے کی کہانی و داستان سناتا رہے وہ کہانی کتنا ہی خوبصورت و خوشنما ہو لیکن صرف وہ کہانی اور قصہ پارینہ ہی رہیگا۔
تحریکی و جنگی تاریخ کے صفحات کو کھنگالنے و سمجھنے کے بعد، ذاتی تجربات و مشاہدات کے تناظر میں علم نفسیات و علم فلسفہ کی روشنی میں کل مل ملا کر اس حتمی رائے پر بندہ قائل ہوجاتا ہے، بلکہ یہ رائے عقیدہ بن جاتا ہے کہ جب بھی کوئی بھی جہدکار یا انقلابی کا زوال شروع آتا ہے، تب اسکا حال جمود کا شکار ہوجاتا ہے، اسکے فخریہ قصے ماضی سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں سے وہ غیر متعلقہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہیں سے وہ انقلاب، آزادی و تبدیلی سے کٹ کر ماضی کا امین بن جاتا ہے، دوسرے الفاظ میں رجعت پسند بن جاتا ہے۔ اسی لیئے علم سماجیات میں کہا جاتا ہے کہ وقت کے پہیئے کے ساتھ چلنے سے انکار ہی کل کے انقلابی کو آج کا رجعتی بنادیتا ہے۔
ایک انقلابی جہدکار یا کسی بھی آزادی کے تحریک کے مجاہد یا اسکے رہبروں میں اور خصوصیات ہوں یا نا ہوں لیکن ان میں ایک خصوصیت اخلاقی معیار ضرور ہوتا ہے، یہی معیار انہیں منفرد، قابلِ بھروسہ اور انکے جہد کو پرجواز بناتا ہے، خاص طور پر انقلابی لیڈروں میں باقی خصوصیات اپنی جگہ لیکن اخلاقی معیار کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ معیار کسی انقلابی جہدکار، انقلابی لیڈر میں مرچکا ہو تو پھر توبہ نعوذ بااللہ خدا بھی اس کی مدد کرے وہ زوال سے نہیں بچ پائیگا۔
یعنی ابھی سو سال نہیں گذرے ہیں کہ ہمارے حافظے مٹ چکے ہوں، یہ کل کی ہی باتیں ہیں، سب ہوش و حواس میں بھی ہیں، کافی دوست ضرور گذرچکے لیکن سب شہید بھی نہیں ہوئے ہیں، گواہی دینے کیلئے کافی سے زیادہ حیات ہیں۔ جب ” مسٹر عالمی قانون ” کی طرف سے واضح الفاظ میں یہ ہدایت نامے آتے تھے کہ مسافروں سے کچھا کچھ بھرے ٹرینوں و بسوں پر حملے کرکے انہیں اڑاو، کسی دن خاص حکم نامہ بھیجا کہ غیروں کی بڑی تعداد میں صفائے کیلئے انکے شادی بیاہ کے موقع پر میرج ہالوں پر حملے کرو، پکنک پوائنٹوں پر حملے کرو، غیروں کے گھروں و بستیوں پر حملے کی تاکید کی جاتی تھی۔
حتیٰ کہ آپسی و نام نہاد احتسابی جنگ کے نام پر مری بلوچوں کے گھروں، گدانوں پر حملہ، کیا یہ عام آبادی پر حملے نہیں تھے؟ کیا یہ عالمی قوانین کے کسی بھی شق کے تحت ہورہے تھے؟ یا پھر یہ عالمی قوانین اب نئے نئے مرتب ہوئے ہیں؟ یا پھر اس وقت ہم نے پڑھے نہیں تھے؟ یا آج سمجھ آ گئے؟ یا وہ سارے غلطی تھے؟ پھر ہم اخلاقی جرت کرکے یہ مان لیں وہ غلطی تھے، نا سمجھی تھے یا پھر عالمی قوانین سے عدم واقفیت تھی؟ یہ تسلیم کرنا مختصراً دراصل اخلاقی معیار ہوتا ہے، جس کا میں نے پہلے ذکر کیا۔ بجائے تسلیم کرنے کہ بس جہاں سے داد وصول کرنا ہو تو پھر کرشماتی لیڈر اور جہاں سے دامن بچانا ہو تو پھر پرائمری اسکول کے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہتے ہیں کہ جی میں معصوم ہوں مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں جو کچھ کیا سب کچھ دوستوں نے کیا، سوشل میڈیا پر گالی گلوچ ہوئی جی آپ نے تین سال کچھ کہا؟ نہیں جناب مجھے پتہ نہیں تھا دوستوں نے کیا، یوبی اے کے ساتھ جنگ؟ جی دوستوں نے کیا، ٹرینوں اور بسوں میں سارے مخبر تھے؟ جی دوستوں نے نہیں بتایا۔
ہم تو آج بھی برملا کہتے ہیں کہ یوبی اے کے ساتھ لڑائی موجودہ تحریک کے لیے باعث تباہی ثابت ہوا، یہ سیاہ ترین اعمال میں ہمارا ذاتی کس حد تک حصہ داری و حمایت تھا یا نہیں تھا یا مخالفت تھی اس پر کوئی وضاحت اور صفائی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے، کوئی آج نہیں مانے اس کو بھی اچھی طرح دل میں معلوم ہی ہوگا۔ اس وقت کی سب باتیں و دلیلں پیشن گوئیاں وغیرہ پھر بھی آج ہم سب کو اپنی اپنی غلطیاں مان کر تسلیم کرتے ہیں اس طرح نہیں کرسکتے ہیں میں نہیں تھا یہ سب کچھ دوست کررہے تھے کیونکہ ہم تنظیمی بنیاد پر حصہ تھے۔
یوبی اے اور بی ایل اے کی جنگ میں مری بلوچوں کی بستیوں پر حملے ہوئے، درجنوں خواتین، بچے بوڑھے شہید ہوئے گھروں گدانوں کو جلایا گیا، ان کے تمام تر ریکارڈ و اعداد شمار آج بھی موجود ہیں (کسی اور وقت ان تمام واقعات کا ریکارڈ، خواتین اور بچوں کی شہادت سب تفصیل سے بیان کرونگا) کیا یہ آپسی جنگ یواین جینیواکنوینشن کے کس شق کے تحت ہوا؟ اس جنگ کے ہدایات کون دے رہا تھا؟ وہ ریکارڈنگ آج بھی موجود ہیں، 3 اور 4 گھنٹے تک فون پر مریوں کو مریوں کے خلاف اکسانا، وہ ریکارڈنگ موجود ہیں، کیا یہ بزدلانہ اور شرمناک آپسی جنگ عین عالمی قوانین کے مطابق تھا؟ کیا یہ عالمی یا تنظیمی اصول تھے کہ کوہلو کاہان کے تمام کمانڈران نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ یوبی اے کے خلاف جنگ نہیں لڑی جائیگی لیکن انکے فیصلے کو نظر انداز کرکے چھپایا گیا، باقی تنظیم کو آگاہ نہیں کیا گیا، اور دوسرے کیمپوں کے ساتھیوں کو لڑنے کیلئے بھیجا گیا۔
اسٹاک مشن پر قوم کے ہیرو، جانثار دوست ضائع اور مری بلوچوں کی آپسی جنگ میں درجنوں بی ایل اے اور یوبی اے کے دوستوں کی شہادت خاص طور پر استاد گہرام جیسے عظیم کمانڈر کا دلخراش واقعہ، کیا استاد گہرام جیسے باشعور و با علم اور عظیم انسان ضائع نہیں؟
کیا مجید بریگیڈ کے اولین فدائی شہید درویش کا فدائی حملہ عالمی قوانین کے مطابق تھا؟ یا پاکستانی و پنجابی ذہنیت کی طرح روس کے وقت طالبان مجاہد، امریکہ کے وقت دہشتگرد یا پھر گڈ طالبان بیڈ طالبان کی طرح گڈ فدائی بیڈ فدائی کا بھی فلسفہ آچکا ہے؟ ابھی درویش فدائی یا جذباتی یا استعمال؟ شہید درویش کا حملہ کامیاب یا ناکام؟ کرایہ کشی و پروکسی آخر کیا؟
یا پھر نیا میر اور اس کے چوروں کا قصہ ہوا، ایسا تھا کسی گاوں میں کسی کے ذہن پر میر بننے کا بھوت سوار ہوا، تو ویسے میر بننے کے لیے سب سے پہلے چند نوجوان ڈھونڈنا اور انھیں چوری کروانا پڑتا ہے، تو نئے میر نے بھی ایسا کیا، چوری شروع، نئے میر کے بندوں نے گھڑی ، ٹیپ، جوتے، سائیکل، موبائل جو ملتا چوری کرتے جاتے۔ آخر کار چوروں نے لیویز والوں کو مار کر ان کے ہتھیار چھین لیئے پھر نئے میر کے لیے زمین تنگ ہوگئی، پھر بس لاتعلقی اور لاتعلقی کرتا پھرتا، زندگی بھر جہاں بھی چوری ہوتا نئے میر کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کون ہیں، کوئی اس سے پوچھتا بھی نہیں لیکن پھر بھی وہ لاتعلقی کا اظہار کردیتا، وہ بیچارہ صبح اٹھتے ہی ایک بار ضرور لاتعلقی کا اظہار کرتا، نئے میر کی پوری زندگی لاتعلقی اور وضاحت میں گذر گئی اب مجھے بھی لگتا ہے کہ ہمارے میر کیلئے بھی یہ لاتعلقی والا سلسلہ بلوچستان کی آزادی تک جاری رہیگی۔
بھروسہ و اعتبار کیا ہوتا ہے؟ یہی اخلاقی معیار ہی ہوتا ہے۔ دنیا میں ایک خطرناک اور انتہائی گھٹیا فارمولہ ہر جگہ آپکو نظر آئیگا، غالباً ہر انسان نے اس فارمولے کو ضرور کسی نا کسی مقام پر کبھی نا کبھی اپنانے کی کوشش کیا ہے کہ کوئی بھی مشترکہ عمل کرنے سے پہلے وہ عمل اس طرح کرتا ہے، جب کامیابی ہو تو میرا اگر ناکامی و رسوائی ہو تو دوسروں پر ڈالنا، اس کے لیے پہلے کوئی ثبوت نہیں چھوڑنا بلکہ ہاتھ کی صفائی سے کام کرنا لیکن یہ خصلت ہرگز ہرگز حقیقی انقلابیوں کے لیے نہیں ہوتا ہے۔ یہ خفیہ اداروں، سامراجیوں، ساہوکاروں، سرکاری ملازموں، ٹھیکہ داروں، سیاستدانوں، ہمارے ہاں نوابوں، سرداروں، میر و معتبروں کی خصلت ہے۔
جبکہ انقلابی قیادت و کارکنوں کے رشتے کی بنیاد نظریہ و فکر اور اس سے بھی مضبوط بنیاد بھروسہ ہوتا ہے، کارکن کو یہ بھروسہ سو فیصد ہو کہ جب خوشی، کامیابی، ترقی، غلط و صحیح، مشکل و آسان، مصبیت و سکون، آرام و زوال، فائدہ و نقصان وغیرہ میں قیادت میرے ساتھ برابر شریک ہے تو وہ قیادت پر بھروسہ اپنی جان سے زیادہ کریگا۔ جب اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ ناکامی، رسوائی، نقصان، غلطیوں کا تحفہ ایک وقت ضرور میرے کھاتے میں ہونگے، پھر جان، مال، خاندان قربان کرنا کیا اپنی نیند بھی قیادت کے بھروسے پر قربان نہیں کرسکتا۔ بس وقت پاسی کی حد تک ساتھ ہوگا مگر ایمانداری و مخلصی کے ساتھ نہیں کیونکہ وہ جان چکا ہوگا۔ میں کارکن سے زیادہ ٹشو پیپر ہوں، پھر وہ ساتھ ہوگا لیکن زیادہ تر اپنی ذاتی مستقبل، خاندان کا سوچتا ہوگا۔
بدقستمی سے آج کیوں بلوچ تحریک میں ایک طرف جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہنستے ہوئے خوشی سے قربان ہورہے ہیں، دوسری طرف ایک پورا مائنڈ سیٹ تیار ہوچکا ہے کہ میں اور میرے بچے مستقبل میں کیسے سیٹ ہونگے کہاں سیٹ ہونگے؟ یہ سوچ اور مائنڈ سیٹ شروع میں کیوں نہیں تھا؟ وجوہات کیا ہیں؟ خوف و تھکاوٹ؟ عدم اعتماد، دھوکا دہی؟
بالکل ایسے مائنڈ سیٹ کے لوگ بھی تحریک یا کسی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں اور تحریک و قوم پرستی کے سب سے بڑے دعویدار ہوتے ہیں، کسی لیڈر کے پرستار اور جیالے بھی ہوتے ہیں، مگر یہ ہرگز انقلابی نہیں ہوتے، جب انقلابی نہیں ہوتے ہیں وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں۔ جہاں اولین ترجیحات میں بندے کا ذات و خاندان بال و بچے ہوں، ان کا مستقبل ہو، ان کی زندگی کا تحفظ اور سیٹ کرنے کا سوچ ہو پھر وہاں سے انقلاب، جنگ، تحریک، قربانی، کردار نبھانے کی بات و دلیل صرف لغویات کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کراچی اسٹاک ایکسچینچ پر بی ایل اے مجید برگیڈ کے چار فدائین کا حملہ، تو یہ حملہ کیوں کیا گیا؟ کیسے کیا گیا؟ کب سے تیاری تھی؟ یہ تیاری و منصوبہ بندی کا پروسس کس کس مرحلے سے گذر کر منطقی انجام تک پہنچا اور اس پروسس اور اہم مشن کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی خاطرکن کن رکاوٹوں کے پہاڑوں سے گذرنا پڑا، کیسے کیسے تکلیف و مشکلات اور پریشانیوں کے دشت و صحرا سے گذر کر مشن کو مکمل کر پائے۔ شاید جو اس پورے عمل کا حصہ نہیں، وہ اپنی جگہ لیکن جو جنگ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اس مشن کی ٹیم کا حصہ نہیں، ان کے آراء اور سطحی تجزیوں سے بھی آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان کو بھی آٹے میں نمک برابر اصل حقائق سے واقفیت و اندازہ ہے۔ پھر کوئی کیسے اور کس طرح مکمل سیاق و سباق سے کاٹ کر اس مشن کو ڈسکس کرکے اور اسکے جنگی پہلوؤں پر تجزیہ کرسکتا ہے؟ پھر مزے کی بات یہ ہے کہ جو جنگی تجزیہ کرتے ہیں، کیا وہ امریکی میرین ہیں یا انہوں نے کسی بڑے جنگی مشن پر کام کرکے تجربہ حاصل کیا ہوا ہے، اور اب اپنے مشاہدات و تجربات کی بنیادوں پر مشن اسٹاک پر صحیح تجزیہ کرسکتے ہیں؟
عالمی سطح کے کسی عسکری ماہر یا فوجی تجزیہ نگار کے اسٹاک مشن پر تجزیئے کے علاوہ مقامی سطح کے تمام تر تنقید، تجزیہ، نقطہ چینی اور تبصرے وقتی کیفیت کے سطحی اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ ان ردعملوں میں بھی حب علی سے زیادہ بغض معاویہ شامل ہے۔
یہ سوال گردش کررہا ہے کہ مشن اسٹاک کامیاب یا ناکام ہوا؟ میرے نزدیک کچھ کمزوریوں کے علاوہ کامیاب ہوا، باقی ہم تاریخ و مورخ پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس مشن کو وقت کے میزان کے کس پلڑے میں ڈالتا ہے۔
جہاں تک جنگ میں یا کسی بھی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کمزرویوں اور غلطیوں کی بات ہے تو یہ ہونگے اور آگے بھی ہوتے رہینگے، غلطیوں کا سلسلہ اس وقت رک جائیگا، جب آپ عمل سے دستبردار ہوجائیں پھر نہ کوئی شہید ہوگا، نہ کوئی گرفتار و لاپتہ ہوگا، نہ کوئی حسیبہ و ماہ رنگ، سیما و صبحیہ ہوگی اور نہ کوئی ماما قدیر ہوگا، نہ ہی انسانی حقوق کی پامالیاں ہونگی، نہ ملک ناز ہوگا اور نہ ہی برمش۔ نہ توتک کا اجتماعی قبر ہوگا اور نہ جرمنی، لندن و امریکہ میں مظاہرے ہونگے۔
ابھی فیصلہ ہر ایک کے اپنے ہاتھ میں ہے، کچھ کرینگے تو ضرور کچھ ہوگا، خاموش تماشائی بن کر بیٹھیں گے تو کچھ نہیں ہوگا، ظلم کے خلاف اٹھینگے، عمل کرینگے، جدوجہد کرینگے، آپکے عمل میں غلطی کا امکان ہوگا، مشکلات پیش آئینگی، جلدی موت ہوسکتی ہے، تنقید ہوگی، مخالفت ہوگی۔ کچھ نہیں کرینگے تو آرام و سکون ہوگا، مگر یہ اس وقت ہوگا جب اپنے ضمیر کو سب سے پہلے گلہ گھونٹ کر ختم کرینگے۔ یہ قومی درد رکھنے والے باشعور انسانوں کی بس کی بات نہیں، اس لیے جہاں تھوڑا بہت علم و شعور ہے، قوم کا درد ہے، آزادی کی چاہ ہے، وہ اجازت نہیں دیگا۔ جب تک یہ درد اور یہ شعور رکھنے والے بلوچ اس سرزمین پھر رہینگے، آرام خود کو مسترد اور موت خود کو منتخب ہوتے دیکھتی رہیگی۔
یہ جو ہمینگوے کے افسانے کے “ریٹائرڈ بُل فائٹروں” کی طرح مجمع میں چھپ کر، گرم شیمپئن کا گھونٹ بھرتے ہوئے تنقیدی مضمون چھاپتے ہیں۔ یہ دراصل اب مزید اس بدمست بھینسے سے لڑنے کی سکت و نیت نہیں رکھتے۔ اب محض روزی روٹی چلارہے ہیں۔ انہیں مجمع میں چھپ کر گلا پھاڑ کر چیخنے دو، بھینسا وہ پچھاڑے گا جو “ارینا” کے سخت ریت پر کھڑے ہوکر بھینسے کی آنکھوں سے آنکھیں ملائے گا۔
کہانی کے آخر میں جب اسکا مرکزی کردار مینوئل “بُل فائٹنگ” کے دوران شدید زخمی ہوتا ہے اور سب کو لگتا ہے کہ وہ مرجائے گا تو اسکا شناسہ ” پرانا بُل فائٹر” زوریتو قینچی لیکر پہنچ جاتا ہے۔ زوریتو نے اسے وارننگ دی تھی کہ اگر اس نے کوئی غلطی کی تو یا مینوئل اپنا کولیٹا خود کاٹ دے ورنہ زوریتو کاٹ دے گا۔ جیسے ہی وہ مینوئل کا کولیٹا کاٹنے لگتا ہے، مینوئل اسکا ہاتھ غصے سے پکڑ کر جھٹکتا ہے اور کہتا ہے ” ابھی تک میں زندہ ہوں، ابھی تک میری جنگ جاری ہے”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔