قتل یا حادثاتی موت؟
تحریر۔ رضوان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
13 اگست 2020، تربت شہر اور بلوچستان بھر میں جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ۔ جب حیات بلوچ اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹارہے تھے, ہمارے محافظوں کے ایک ٹولے نے ان کو انکے والد صاحب اور ماں کے سامنے ہاتھ باندہ کر سخت تشدد کے بعد آٹھ گولیاں مار کر شہید کردیا، اس وقت ان کے والدین پر کیا اذیت گزر رہی ہوگی۔
جب کسی بچے کو اس کے والدین کے سامنے شہید کردیا جائے تو اُس وقت اُس بے بس ماں, اور لاچار باپ پر کیا گذررہی ہوگی؟ اُس ماں کی حالت کیا ہوگی جو نو ماہ صرف اپنے بچے کو اپنے کوکھ میں پالتی ہے، اس اذیت ناک درد کو میں کِن الفاظ میں بیان کروں؟
ہزاروں ارمان ہونگے حیات سے ان کے والدین کو۔ حیات کرونا جیسے عالمی وباء کے بڑھتے ہوٸے خطرات کے ڈر سے اپنے گاؤں چلے آۓ کہ یہاں کچھ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزاروں، اپنے باپ کا ہاتھ بٹاوں اور وہی کر رہے تھے کہ ہمارے محافظوں نے حیات بلوچ کو تحفظ دینے کے بجائے اُس کی بے بس ماں باپ کے سامنے مار پيٹ کے بعد ہاتھ پاٶں باندھ کر جسم میں 8 گولیاں مار کر حیات کو ہمیشہ کے لیے آزاد کردیا۔
حیات اپنے فیملی کا واحد جوان تھا جو کراچی یونیورسٹی میں فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایٓر کا طالب علم تھا, اس نے اپنے دوستوں سے کہا,میں وہ وقت دیکھنا چاہتا ہوں جب میں کسی قابل بن کر ایک اسٹیج پر پہنچوں جس کی مدد سے اپنے خاندان اور اپنے برادری کے لیے کچھ خدمات سرانجام دے سکوں, جس سے میرے اپنوں کی تقدیر بدل سکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اگر ہم ماضی کی طرف ایک نظر دوڑائیں تو ایسے نیک و بد بخت لوگ ہمیشہ سے ہی اس ملک میں دہشتگرد قرار دیئے گئے ہیں۔ لیکن ایک سوال وہ کیسے ایک دہشتگرد ہوسکتا ہے؟ کیا حادثاتی موت ہاتھ باندھ کر آٹھ گولیاں مارنے سے ہوتی ہے؟
ہاں یہ حادثاتی موت کیوںکہ یہ ریاست,پچاس ہزار سے زائد بلوچوں کو پہلے بھی حادثاتی طور پر ہمیشہ کے لیے آزاد کرچکا ہے۔ آخر سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ حادثاتی موت کیا ہے؟ اگر حادثاتی موت ہاتھ پاٶں باندھ کر جسم میں آٹھ گولياں مارنے کو کہتے ہیں تو یہ ریاست 50 ہزار سے بھی زائد بلوچوں کو حادثاتی طور پر مار چکا ہے۔
وہ جو ٹارچر سيلوں میں بند سخت تشدد کا نشانہ بننے کے بعد شہید ہوتے ہیں وہ بھی حادثاتی طور پر شہید ہوۓ ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔