ظلم و بربریت کی ایک داستان – حمل بلوچ

1071

ظلم و بربریت کی ایک داستان

تحریر: حمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ظلم و جبر کا نام سماعتوں پہ پڑتے ہی بلوچستان کا نام ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ جسکی سب سے بڑی وجہ شاید بلوچستان میں جاری مظالم کی کئی سالہ انتہا ہے، جہاں بلوچ آزادی پرستوں کی بات کی جاتی ہے تو وہاں ایک غریب اور متوسط طبقے کی بات بھی آتی ہے جنہوں نے شاید بلوچستان کیلئے سب سے زیادہ قربانی دی ہے مگر وہ قربانی نا آزادی کے نام اور نا ہی غداری کی! تو اسے کیا نام دیا جائے؟

حیات بلوچ، جو کہ بلوچستان کے شہر تربت سے تعلق رکھنے والا ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا، کا یوم آزادیِ پاکستان کے موقع پر اس طرح بے دردی سے قتل ہونا اس بات کی مکمل دلیل ہے کہ بلوچوں کو اس (پاکستانی) قوم میں شمار نہیں کیا جارہا جسکی واضح ثبوت ایف سی کے گذشتہ چند سالوں میں بلوچوں پر انتہائی ناگوار حرکات و ظلم ہے۔

یہاں ذہن نشین کرنے والا نقطہ زیرِ غور ہے کہ ایک تو بلوچ تعلیم و امن پسند لوگوں (چاہے وہ کتنے بے گناہ ہی کیوں نہ ہو) کو قتل کیا جارہا، تو دوسری طرف اپنے آزادی کے موقع پر ایسی انہونی حرکات کیا جارہا جس سے واضح یہ پیغام مل رہا ہے کہ پاکستانی قوم بلوچوں کو اپنی ہم وطن نہیں بلکہ دشمن سمجھتے ہیں ورنہ آزادی کے موقع پر ہم وطنوں اور بھائیوں کے ساتھ خوشیاں مناتے نا کہ انکو دشمنوں کی طرح گھسیٹ کر بندوق کی نوک پر رکھتے ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ ایک ناختم ہونے والا مسئلہ ہے مگر جہاں تک اسے سلجھانے کی بات ہے تو اس مسئلے کو آگ اور پھر اسی آگ کو ہوا دینے والی ایف سی کو بلوچستان سے نکال دیا جائے تو نا ریاست کو بین الاقوامی سطح پر بے عزتی و بدنامی اٹھانی نہیں پڑیگی اور نا ہی بلوچوں کو حیات بلوچ جیسے غریب اور بے گناہ لوگوں سے محرومی ہوگی، مگر یاد رہے کہ تاریخ میں ذرا سی انصاف ہوگی تو حیات بلوچ جیسے ہزاروں بلوچوں کی خون کو تاریخی ادوار میں یاد کیا جائیگا اور ایف سی اور ان جیسے کئی مظالم کو یزید کی طرح قلم کی نوک سے نیچا دکھایا جائے گا کیونکہ بندوق کی مار کھانے والوں (بلوچوں) کو لوگ نظریں اٹھاکر یاد کیا کرینگے مگر قلم سے مار کھانے والے اِن خونخوار درندوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرسکتا۔

واضح رہے ایف سی کو اس سرزمین سے نکالا نہ گیا تو پھر سے ایک خونی انقلاب کا اندیشہ ہے جس کا ازالہ ناممکن ہوگا. اس نقطہ پر ہر فرد افسوس، رنج و غم کا اظہار کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ بلوچستان کی بگڑی ہوئی حالات سدھرنے کے بعد پھر سے خراب کرنے اور بلوچوں کو خود ہی مزاحمت کرنے پہ اکسایا جارہا ہے جسکا الزام تراشی بلوچ قوم پر غداری کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

یاد رہے غدار وہ نہیں جو اپنے نہتے بھائیوں کی خون بہانے پہ آواز اٹھائے مگر وہ جو اپنی انا اور گری ہوئی عزت بچانے کیلئے معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام کرکے خود کو قوم کا محافظ سمجھتے ہیں۔ سچ کہا کسی نے “پاکستانی وہ واحد قوم ہے جو اپنے دشمنوں سے زیادہ اپنی محافظوں سے ڈرتے ہیں”.

مگر یاد رہے بلوچ قوم نے کبھی ان محافظوں کے نام پہ مشہور دشمنوں کو اپنا محافظ و حامی نہیں سمجھا اسکی سب سے بڑی وجہ خود انکے اپنے کرتوت ہے جو حیات بلوچ جیسے ہزاروں بلوچوں کو چھین کر اس دور کے یزید بنے بیٹھے ہیں۔ یاد رہے کہ اس نقطہ پر غور نہیں کیا گیا تو پھر سے ایک جنگی انقلاب برپا ہوسکتی ہے جو شاید کئی برسوں بعد ایک آزاد ریاست پاکر ہی تھم جائے جس میں انسانی جانوں کی ضیاع کا ازالہ تو نہیں ہوسکتا مگر اسکی ذمہ داری ریاست پر عائد کی جاتی ہے جو اس قتل و غارتگری پر نا صرف خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں بلکہ قدم بہ قدم ان مظالم کی مدد کی جارہی ہے جو امن برقرار رکھنے کے نام سے بلوچستان کا امن لوٹ رہے ہیں. اس لئے گو ایف سی گو کا نعرہ لگاکر بلوچستان کی سرزمین کو انکی ناپاک وجود سے پاک کرکے ہی دم لینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔