صدا دبے گی تو حشر ہوگا – میر بلوچستانی

684

صدا دبے گی تو حشر ہوگا

تحریر: میر بلوچستانی

دی بلوچستان پوسٹ

4025 دن یعنی گیارہ سال سے زائد کا تلخ و طویل عرصہ جس میں سینکڑوں سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے بچے، جوان، بوڑھے بزرگ، ماما قدیر کی قیادت میں اپنے گھروں کے حرم سے نکل کھلی سڑکوں پر آہ و فریاد کر رہے ہیں کہ ان کے پیارے، انکے جگر گوشے جو اٹھا کر غائب کر دیئے گئے ہیں انہیں لوٹا دیئے جائیں یا انکی کوئی خبر ہی دے دی جائے۔

ان گمشدہ کر دیئے گئے افراد پر ‘لاپتہ’ کا نام پڑ گیا ہے جبکہ سبھی کو انکا پتہ معلوم ہے کہ کس پتے پر انکا پتہ موجود ہے مگر چونکہ یہ لواحقین کیلئے لاپتہ ہیں تو لواحقین نے اپنی تحریک کا نام بھی ‘بلوچ افراد کی لاپتہ آواز’ کا نام دے دیا ہے۔

اس دہائی کے اندر ہم نے بیشمار لواحقین دیکھے جنہوں نے اپنے درد و غم کا مختلف طریقوں سے اظہار کیا۔ چند ایک خوش نصیب اپنے پیاروں کی کھوج لگانے میں کامیاب ہو سکے مگر بھاری اکثریت مایوس ہی لوٹی ہے۔

ماما قدیر کی قیادت میں معصوم بچہ علی حیدر اپنے والد رمضان بلوچ اور بانک فرذانہ بلوچ اپنے بھائی زاکر مجید کی تلاش میں دیگر لواحقین کے ساتھ کوئٹہ سے اسلام آباد تک ساڈھے تین ہزار کلو میٹر پیدل لانگ مارچ کر کہ ملکی ایوان اقتدار تک اپنی صدا پہنچانے گئے۔۔۔ مگر ، مایوس ہی لوٹ آئے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کی کیمپ آہ و سسکیوں کا ایسا کربلا ہے کہ جہاں مسلسل ماتم ہی چل رہا ہے۔ ماہرنگ سے مہلب کو لیکر انسہ، سیمہ اور حسیبہ تک سبھی اس میدان کربلا کو خون کی آنسوؤں سے تر کر چکے ہیں۔

لواحقین کے کیمپ میں ہر نئی متاثرہ نے اپنی آہ فریاد سے لوگوں کا توجہ حاصل کیا ہے اور اس توجہ کا ذریعہ صرف آنسو ہیں، سسکیاں ہیں، فریادیں ہیں۔

ان سسکیوں اور فریادوں کو پیداگیروں نے ایوانوں کی منڈیوں میں بولی لگوا کر ٹھیکوں اور ٹکوں کے عوض بیچا بھی ہے اور کچھ نے اس طرف ہاتھ نہ ڈالنے کی وعدے قرار کے اوپر خوب بیوپار کیا۔ مگر کسی نے ان زخموں پر درست مرہم رکھنے کی جسارت نہیں کی۔

فی الوقت اس میدان کربلا کی دل دہلا دینے والی صدا حسیبہ قمبرانی کی ہے جنکا بھائی حسان قمبرانی کو 14 فروری 2020 سے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ حسیبہ قمبرانی کو تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے جو اپنی حرم سے نکل میدان میں آئی ہے، مگر تھوڑے ہی دنوں میں انکی آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اتنے اشک بہا دیئے اس سڑک پر کہ جو بھی یہاں قدم رکھے وہ سر سے پاؤں تک تر ہو جائے مگر مجال ہے کہ ارباب اختیار کی دلوں پر کوئی اثر ہو۔۔۔ غیروں سے گلہ تو ترک کر دیئے ہیں مگر وہ ‘اپنے’ کہاں ہیں جو ان آنسوؤں کے سب سے بڑے بیوپاری ہیں؟ کیوں وہ آ کر حسیبہ کے سر پر ہاتھ نہیں رکھتے کہ جس سے شاید حسیبہ کچھ لمحے کی سکھ کا سانس لے پائے؟

نہیں! کوئی نہیں آتا۔۔۔ یہ جہد، یہ جنز، یہ آشوب قومی ہے سب کی ہے تو پھر یہ آنسو، یہ درد، یہ ماتم صرف لواحقین کی کیونکر ہو گئیں ؟

حسیبہ کی آنکھوں کے پانی تو خشک ہو چکے ہیں اور ان آنکھوں سے لہو بہہ کر بھی جم رہے ہیں۔ اگر حسیبہ ان خشک آنکھوں کے ساتھ مایوس لوٹ جاتی ہیں تو یہ سوکھے لہو حشر بپا کر دینگی۔ ارباب اختیار سے نام نہاد ‘اپنوں’ کو اس حشر سے ڈرنا ہوگا اور صداؤں کو بلند ہوتے رہنے دینا پڑیگا۔

بجھا سکو تو دیا بجھا دو
دیا بجھے گی تو سحر ہوگا
دبا سکو تو صدا دبا دو
صدا دبے گی تو حشر ہوگا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔